ٹرمپ انتظامیہ کی معلومات کا افشاء انتظامی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کا باعث بن سکتا ہے

ٹرمپ انتظامیہ کی معلومات کا افشاء انتظامی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کا باعث بن سکتا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن (اظہر زمان، بیوروّچیف) باخبر ماہرین کیلئے یہ امر تشویش کا باعث بن رہا ہے کہ جس وسیع پیمانے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی اہم معلومات افشا ء ہو رہی ہے، وہ انتظامی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ تبصرہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی تازہ اشاعت میں کیا ہے جو ان دنوں ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے ہمراہ صدر ٹرمپ کی تنقید کا خصوصی نشانہ بن رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں بھی امریکی میڈیا کو ’’جعلی‘‘ اور ’’کنٹرول سے باہر‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا زیادہ تراصل نشانہ یہی دو اخبارات ہیں۔’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے اپنے تبصرہ میں لکھا ہے کہ یہ ’’گہری حالت‘‘ (Deep State) پیدا ہونے کے آثار ہیں جس کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے بتایا ہے کہ ایسی صورت میں غیر معتبر نیٹ ورکس حکومت کی بیورو کریسی میں راستہ بنا لیتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے منتخب حکومت کی توڑ پھوڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اخبار کے مطابق اس کی تازہ مثالیں ترکی، مصر اور پاکستان میں موجود ہیں۔ اگرچہ بعض معلومات افشا ء ہونے سے حکومت کے ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا مثبت نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے تاہم صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے مختصر عرصے میں اس طرح کا مسلسل افشاء انتہائی تشویش کا باعث بن رہا ہے۔سیاسی ماہر الزبتھ سانڈرس نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ بہترین حکمت عملی کا فیصلہ کرنے کیلئے انتظامی ٹیم کے ارکان سرعام کتے بلیوں کی طرح بحث و مباحثے میں مصروف ہیں جو بالکل پسندیدہ بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معلومات کا افشاء ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس حد تک افشاء ہونا اور اتنی جلدی ہونے کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ اب اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ افشاء کرنے کے ذمہ دار حکام کو تلاش کرکے انہیں سزا دینے کا عندیہ دے رہے ہیں جو جلتی پر تیل ڈالنے کا باعث بنے گا تاہم ماہرین نے اخبار کو بتایا ہے کہ امریکہ کی صورت حال مصر اور ترکی جیسی خراب نہیں ہے جہاں حکومتوں کو بغاوت سے نمٹنا پڑا تھا۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی سکیورٹی ماہر ایمی زیگارٹ کی رائے میں ’’وائٹ ہاؤس اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے درمیان جنگ دونوں کیلئے برُی ہے اور اس کے علاوہ قومی سلامتی کیلئے بھی اتنی ہی برُی اور نقصان دہ ہے۔‘‘
اظہر زمان

مزید :

علاقائی -