چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ نویں قسط

چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ نویں قسط
چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ نویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترجمہ :ایم وقاص مہر

کنفیوشن فلاسفی کی بنیاد رنگ(reg) یعنی ۔پیا ر ، برداشت ،ایمانداری،عظمت اور ذمہ داری ہے۔وہ بہت گہرافلسفی اور حلیم انسان تھا۔اس کے شاگردوں نے اس کے تمام لفظوں اور کاموں کے اقتباسات کو اکٹھا کر دیا تھا جو چین کے ’’چار کلاسیکس‘‘میں سے بہت اہم کا م بن گیا تھا۔
کنفیوشس کی زندگی کے دوران ہی چین درجنوں آزاد ریاستوں میں منقسم ہو گیا تھا۔اگرچہ وہ تمام شہنشاہ زویو(zhou)کو برائے نام اپنا فرمانروا مانتے تھے لیکن وہ سب سیاسی طور پر آزاد ریاستیں تھیں۔یہ ریاستیں نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ لین دین اور ہم سری کر تی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرتیں اور دوسروں پر قبضہ کرنے کا موقع ہا تھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔اس مسلسل جنگ وجدل سے لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔

چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بہار اور خزاں کا دور تب شروع ہو ا جب بادشاہ پنگ (ping)نے دارالحکومت کو مشرق سے لیویانگ (luoyang) منتقل کر لیا تھا۔تب سے شاہی پاور کم ہونا شروع ہونے گئی تھی۔ریاستوں میں برتری کے احساس نے مسابقت کی ایک فضاء پیدا کر دی تھی ،دوسروں کا اتصال کرنا اورسیاسی حکم ناموں کو توڑنا معمول بن گیا تھا۔بہار اور خزاں کے دور کی ابتدأمیں وہاں سو سے زائد ریاستیں موجود تھیں،جن میں چھی(qi)،جن(jin)چو(chu)، چھن(qin)،لو(lu)،سونگ(song)،وی آئی(wei)،یان(yan)،چن(chen)،کاؤ(cao)،کائی(cai)،زنگ(zheng)ویو(wu)اوریو ئی(yue)زیادہ مشہور تھیں۔بہار اور خزاں کے دورکو یہ نام کنفیوشس کی طرف سے ایک تاریخی کام کو اکٹھاکر نے کے بعد یہ نام دیا گیا تھا۔کنفیو شس نے لو(lu) کے تاریخ دانوں کے کام کو اکٹھاکیااور ایڈیٹ کر کے بہار اور خزاں (sping and autumn)کا نام دے دیا تھا۔چین میں یہ 481 سے 722قبل از مسیح تک کی یہ ابتدائی سر گزشتہ تاریخ تھی۔سپرنگ اور آٹم کے صفحات پربغیر ذاتی تبصروں کے یہ ایک حقیقی تاریخ ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لفظوں سے تشخیص اور تذلیل جھلکتی ہے،جس کو بہار اور خزاں کا طریقہ کار کہا جاتا ہے۔
تین قسم کے کاموں نے بہار اور خزاں کی تشریح کی تھی ،جس میں زیو(zuo)کا بہار اور خزاں،گونگ یانگ (gongyang) کا بہار اور خزاں اور گولی آنگ (guliang) کا بہار اور خزاں کا کام شامل ہے۔بہار اور خزاں کا دور سینکڑوں سال پہلے کے کنفیوشس کے بہار اور خزاں کے ریکارڈ کو ظاہر کر تا ہے۔
اس وقت کے دوران معیشت ترقی، جبکہ ثقافت پھل پھول رہی تھی۔نطریات حقیقی طور پر آزادی پر ہوتے تھے۔مکتبۂ فکر منظرِعام پر آئے اور بڑی سرگرمی سے ان پر بحث بھی ہوتی تھی۔غلامی کے ضابطے اور آداب تنزل کا شکار ہو گئے تھے۔یہ جنگ و جدل اور بد نظمی کا زمانہ تھا۔کنفیوشس کا یہ مقصد تھا کہ وہ (1046-722ق م) کے مغربی زویو(zhou) کے اتحاد و یگانگت کو بحال کر ے گا،جس میں نظم وضبط کاغیر لچک دار نظام اور آداب موجود تھے۔کنفیوشس اس نظام کے لئے لڑتا رہا لیکن بدلے میں اس نے لوگوں میں خود غرضی کی شہوت اور طاقت کے لئے مستی ہی پائی، خاص طور پر بادشاہوں میں جنہوں نے اس نظام کو پہلے تو تباہ کیا تھا اور اب اسی کی بحالی کے رستے میں مزاحمت کررہے تھے۔تاہم وہ ذات اور خواہش کو محدود کر نے کے لئے کہتا تھا اور اس بکھر ے ہوئے نظام کی بحالی مقصدکی خاطر کام کر تا تھا۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہر ایک کو اپنے رویے اور ذہن کو خیر اندیشی کی طرف بدلنا ہو گا ۔
کنفیوشس ہر ایک کے درمیان فرمانبرداری کے رشتے کے لئے بھی وکالت کیا کر تا تھا۔وہ اس بات کا مطالبہ کیا کر تا تھا کہ حکمرانوں کو اپنی رعایا کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے اور اختلاف پیدا نہیں کر نے چاہیں۔وہ عوام سے مطالبہ کر تا کہ ان کو ہر حال میں ملکی قانون اور ضابطہ کی پیروی کرنی چاہئے اورایک ذمہ دارنہ اور اتحاد والی زندگی گزارنی چاہیے۔کنفیوشس کے فلسفے کی بنیاد ’’خیر خواہی ‘‘ہے جو کہ انسانیت کے بارے میں اس کی عمیق فہم کی و جہ سے تھی۔کنفیوشس کے عقیدے کو کافی پذیرائی مل چکی تھی اور کنفیوشن سکول کو بھی آہستہ آہستہ اس کے اقتباسات کی بنیا د سمجھا جانے لگا تھا۔اس کے نظریات کا بڑا گہرا اثر ہوا تھا اور ان کو حکمران جماعت کی طرف سے بنیادی سیاسی کاموں میں اور اکثر بہت زیادہ مضبوط اعتقادی نظام کے طور پر ، چین میں2000 سالوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

دنیا میں کہنے کو ہر ملک اپنے ماضی کی شاندار عظمتوں پر ناز کرتا ہے لیکن چین جیسی مثال پر کوئی کم ہی اترتا ہے جس نے اپنے ماضی کو موجودہ دور میں شاندار نظام سے جوڑ رکھااور ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔چین نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماضی کو کیوں زندہ رکھا ،اس بات کی اہمیت کا اندازہ مشہور چینی موؤخ ڈنگ یانگ کی ہسٹری آف چائنہ پڑھنے سے ہوجاتا ہے۔