زینب کیس کا بڑا مجرم عمران سزا وار

زینب کیس کا بڑا مجرم عمران سزا وار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سال 2018ء کے آغاز میں ہی صوبائی دارالحکومت سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع قصور میں درندگی کا ایک ایسا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ جسے سن کر ہر انسانی روح تڑپ جاتی اور دل دھل کر رہ جاتا ہے۔ قصور کے رہائشی سکول ٹیچر امین انصاری کی 6سالہ معصوم بچی زینب 4جنوری کی سہ پہر جب گھر سے قرآن پاک پڑھنے گئی تو واپس نہ آئی اور اسے اغوا کر لیا گیا۔ پھر 9جنوری کو یہ قیامت ٹوٹی کہ زینب کی لاش اُس کے گھر کے قریب ہی خالی پلاٹ میں کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ جس کے بعد قصورکی اس بے قصور زینب کا سانحہ عالم گیر شہرت حاصل کرگیا قصور میں تو گویا آگ لگ گئی۔ ہر طرف ہر شخص سراپا احتجاج بن گیا مظاہرے شروع ہوگئے۔ گھیراؤ جلاؤ سے بات دوبے گناہ شہریوں کی ہلاکت تک پہنچی جو مظاہرے میں شریک تھے اور پولیس کی سیدھی فائرنگ کی زد میں آگئے۔ زینب کے ساتھ ہونے والی درندگی اور سفاکانہ قتل کے ساتھ ساتھ دو افراد کی اندوہناک ہلاکت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کیس بڑا ہائی پروفائل بن گیا بالخصوص پنجاب پولیس کے لئے کُھلا چیلنج تھا کہ زینب کے قاتل یا قاتلوں کا سُراغ کیسے لگایا جائے۔ کم سن کی لاش ملنے کے بعد جس قسم کا ردِ عمل سامنے آیا تھا اس سے اس امر کا اندازہ لگایا جانا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ قاتل کی عدم گرفتاری یا مقدمہ ان ٹریسڈ جانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی اس امر کا باخوبی ادارک تھا، جس وجہ سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس سانحہ کا سخت نوٹس لیا اور انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ملزمان کا فوری اور بہر صورت سراغ لگایا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی زینب کے ساتھ درندگی کے افسوس ناک واقعہ کا از خود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے تو اس حوالے سے لاہور میں ہفتہ وار تعطیل اتوار کو خصوصی عدالت بھی لگائی جہاں سانحہ قصور کے تناظر میں معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف سے کئے جانے والے مبینہ انکشافات بھی زیر بحث آئے ایک ایسا موقع بھی آیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی گفتگو زینب کیس پر غالب آتی دکھائی دی تاہم فاضل چیف جسٹس نے اسے بڑی دانش مندی سے حل کیا اور زینب کیس کا ملزم عمران سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کی روشنی میں جلد ہی گرفتار کرلیا گیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے قصورکی ننھی زیب کو زیادتی کے بعدقتل کرنے والے ملزم کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ قاتل سیریل کلرہے ‘ملزم کا ڈی این اے سوفیصد میچ کرگیاہے‘بچی کے محلے دارعمران نے زینب کو زیادتی کے بعد قتل کا اعتراف کرلیاہے‘پولی گرافک ٹیسٹ بھی مثبت آیاہے جس میں ملزم عمران نے سیاہ کاریوں کا اعتراف کیا ہے،میرا بس چلے تو اس بھیڑیئے کو چوک پر لٹکا کر پھانسی دی جائے لیکن ہم سب قانون کے تابع ہیں تاہم ملزم کو سزا دینے کیلئے قانون میں بھی تبدیلی کرنی پڑی توکریں گے ‘درندے کیخلاف کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں جائے گا جس میں قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے‘ جب تک یہ ملزم کیفر کردار تک نہیں پہنچتا ہم ایک لمحے کیلئے بھی چین نہیں بیٹھیں گے‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر 7بچیوں کے ساتھ درندگی کا ملزم بھی یہی ہے ان فیملیوں کو بھی انصاف ملے گا،جلد انصاف کیلئے میکنزم بنائیں گے اسکے لئے کمیٹی تشکیل دے کر خود نگرانی کروں گا،ملزم تک پہنچنے میں کاوش پر آرمی چیف،کابینہ کمیٹی، انٹیلی جنس ایجنسیز، پنجاب فرانزک لیب ،وزراء اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا شکر گزار ہوں‘خدا را لاشوں پر سیاست نہ کی جائے ورنہ یہ آگ آپ کے گھروں تک بھی جا سکتی ہے ‘ مردان میں قتل ہونے والی عاصمہ اورکراچی میں نقیب اللہ محسود کے کیس میں ہر ممکن تعاون کیلئے تیارہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ زینب کیس میں 14 دن کی شبانہ روز محنت رنگ لائی، جے آئی ٹی نے قصور میں دن رات کام کیا‘ کیس میں پنجاب فرانزک لیب نے بھی بے پناہ مدد کی جس کے نتیجہ میں قاتل درندے کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ عمران نامی ملزم قصور کا رہنے والا ہے اور وہ سیریل کلر ہے‘ اس کیس میں 1150 افراد کی ڈی این اے پروفائلنگ کرائی گئی جس میں یہ درندہ عمران شامل تھا‘ پولی گرافک ٹیسٹ میں بھی عمران نے تمام سیاہ کاریوں کا اعتراف کیا‘ جب ڈی این اے میچ کر گیا تو پھر پولی گرافک ٹیسٹ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کم سن بچی زینب کو تو واپس نہیں لاسکتا لیکن یہ وعدہ کیا تھا کہ مجرم درندے کو گرفتار کراؤں گا‘ اس کا پہلامرحلہ گرفتاری کا مکمل ہو گیا ہے‘ اب اس کو کیفر کردار تک پہنچنے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا‘ ننھی زینب پھول کی مانند تھی جسے کچل دیا گیا‘ اس کے قاتل کو بھی کچل دینا چاہئے جس سے درندگی میں کمی آئیگی‘ انہوں نے کہا کہ سو فیصد گارنٹی ہے کہ زینب کا قاتل درندہ عمران ہی ہے‘ انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ درندے کیخلاف عدالت کو تمام ثبوت فراہم کرینگے۔
ملزم کی گرفتاری کے بعد واقعی اس کے خلاف سپیڈی ٹرائل کیا گیا اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جس برق رفتاری سے مقدمے کی سماعت ہوئی اس کی پاکستانی تاریخِ انصاف میں نظیر نہیں ملتی۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے زینب سمیت 8کمسن بچیوں کی بے حرمتی اور قتل کرنیوالے ملزم عمران علی کے کیس کا فیصلہ17فروری کوکوٹ لکھپت جیل میں سنایا۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ قتل کے مرکزی ملزم کا 4روز یعنی 96گھنٹوں میں ٹرائل مکمل کرلیا گیا ،ملزم نے جرم کا اعتراف کرکے اپنا دفاع کیلئے کسی بھی قسم کا ثبوت پیش کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اس نے ننھی بچیوں پر بہت ظلم کیا وہ معافی کے لائق بھی نہیں ،ملزم کے اعترافی بیان کے باوجود پراسکیوشن کی جانب سے سائنٹیفک ثبوتوں کو شہادت کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم دیا۔یہ فیصلہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے سنایا۔جس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانیکی سزا بھی سنائی گئی۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مجرم کے پاس اپیل کرنیکے لیے 15 دن کا وقت ہے جبکہ وہ صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کا حق بھی رکھتا ہے۔
فیصلے پر زینب کے والد امین انصاری نے مجرم کو سزا سنانے پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ زینب کی والدہ نے مجرم کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس جگہ سے زینب کو اغوا کیا گیا اسی مقام پر مجرم عمران کو پھانسی دی جائے۔سماعت کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ مجرم عمران نے نو بچیوں کے ساتھ زیادتی کی تھی جن میں سے دو زندہ ہیں جبکہ سات کا انتقال ہوچکا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ زینب کیس کی سماعت کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ ہم ان ممالک میں شامل ہو گئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جاسکتی ہے۔ دو روز قبل لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اہم کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ زینب کے قاتل کے خلاف جج سجاد احمد نے 4 روز تک روزانہ 9 سے 11گھنٹے سماعت کی،56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ساڑھے گیا رہ سو افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد22 جنوری کو عمران علی پکڑا گیا جو اس کے محلے کا ہی رہنے والا ہے۔ملزم عمران کا ڈی این اے زینب سمیت 8 بچیوں سے مل گیا،جو کہ گزشتہ 2سالوں میں قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی گئی تھیں۔عمران کی جانب سے قصور کی کمسن بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے کے اعتراف کے بعد ملزم عمران کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ بھی واپس لے لیا تھا۔عمران کے وکیل کا کہنا تھا کہ اقرار جرم کے بعد ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ سفاک ملزم کا کیس لڑوں۔
یہ امر تو خوش آئند ہے کہ زینب کیس میں ملزم عمران علی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے جلد سزا پا گیا تاہم اس حوالے سے بعض اطراف سے کئی خدشات اور تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ زینب سمیت قصور میں ہونے والے معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے دیگر واقعات کے کئی کردار تاحال پوشیدہ ہیں اوراس وقت تک یہ مقدمات لاینحل ہی سمجھے جائیں گے جب تک ان سے پردہ نہیں اٹھتا۔ زینب کیس کو کئی اعلیٰ تفتیشی پولیس افسران تجارتی پس منظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس امر کا غالب امکان ہے کہ بچوں کے ساتھ سفاکی کے واقعات میں بڑے پیمانے پر انسانی اعضاء کی خریدو فروخت کا عمل دخل بھی ہے اور چونکہ قصور مختلف طرز کے کیمیکلز کی خریدوفروخت کا بڑا مرکز ہے جہاں پورے کے پورے انسانی جسم کو تحلیل کرنا زیادہ مشکل نہیں اس لئے ان واقعات کی باریک بینی سے تفتیش اہم ترین تقاضا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ محض عمران علی کو تنہا سفاکی کی پوری کی پوری سیریز کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا کافی نہیں دیگر عوامل بھی زیر تفتیش لائے جائیں۔یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اکیلا عمران تمام امور انجام دینے کے قابل نہیں اس کے ساتھی یا سرپرست کون ہیں یا وہ خود کس گروہ کا رکن ہے اس کا سراغ لگایا جانا بھی ضروری ہے۔ اس طرح کے سنگین واقعات کو سیاسی رنگ تو نہیں دیا جانا چاہئے لیکن پسِ پردہ پہلوؤں پر تکنیکی اعتبار سے نگاہ ڈالنی بھی ضروری ہے اس امر کا اشارہ کم سن زینب کے غمزدہ والد امین انصاری اور ان کی اہلیہ نے بھی کیا ہے جبکہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی اس بات کا مطالبہ کیا جاتا رہا کہ زینب کیس کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس ماہرانہ انداز سے تفتیش کی جائے کہ آئندہ کوئی دوسری زینب درندگی کا شکار نہ ہو۔
قصور میں بچے یا بچیوں کے ساتھ بد اخلاقی کے واقعات کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ شہر بچوں کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد قتل کے واقعات کی وجہ سے نہ صرف ملکی توجہ حاصل کرگیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کا تذکرہ ہوتا رہا ہے، 2015ء میں قصور میں ہی متعدد لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز سامنے آئیں، اس وقت بھی بہت ہنگامہ مچا، مذمتی بیانات سامنے آتے رہے، ایکشن لینے کی باتیں ہوئیں اور پھر سب بھول گئے، ہمارا المیہ یہی ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے تو ہم جاگتے ہیں، قصور اسکینڈل کے بعد ایسا ہی ہوا، قومی اسمبلی میں چائلڈ پروٹیکشن بل 2015ء منظور کیا گیا، قانون سازی کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کی گارنٹی نہیں ہوتی، قانون سازی کے باوجود بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، سماجی ادارے ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ گیارہ بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں، جنوری 2017ء سے جون 2017ء4 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1764 واقعات رپورٹ ہوئے، گزشتہ چھ ماہ میں 1067 لڑکیاں اور 697لڑکے بداخلاقی کا شکار بنے، پاکستان میں 2017ء کے ابتدائی چھ ماہ میں بچوں سے زیادتی کے 1764کیسز رپورٹ ہوئے جو 2016ء کے ابتدائی چھ ماہ کے مقابلہ میں سترہ فیصد کم ہیں، رپورٹ میں دیگر بہت سے اہم حقائق بھی بتائے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق زیادتی کا نشانہ بنانے والے 45فیصد ملزم جاننے والے تھے، صرف 7فیصد واقف کار تھے جبکہ صرف 15فیصد اجنبی تھے، یعنی اس قسم کے واقعات میں ملوث زیادہ تر لوگ قریبی جاننے والے ہوتے ہیں، زیادتی کا شکار ہونے والے 266بچے کسی اجنبی جگہ یا ویران مقام پر نہیں بلکہ اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنے، اپنے گھر پر، اپنے جاننے والوں سے، اپنے رشتہ داروں کے ذریعہ یہ بچے زیادتی کا نشانہ بنے، مگر کیونکہ سوسائٹی میں ان باتوں پر بات کرنا منع ہے، بچوں کوا س بات کی تعلیم نہیں دی جاتی تو اکثر بچے ایسے تھے جو اپنے والدین کو بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ والدین کو بتایا تو وہ ڈانٹ دیں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کا اپنا کزن، اپنا کوئی انکل، اپنا کوئی بہت قریبی رشتہ دار ان کے ساتھ یہ زیادتی کررہا ہو، 173بچوں کو کھیتوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، گلیوں میں 83، مدرسوں میں 14، سکولوں میں 11، جرگوں میں 7اور مساجد میں 3بچوں کو بد اخلاقی کا نشانہ بنایا گیا، یہ سب حقائق ہے جو سکو ل ، کھیتوں، مدرسوں سے لے کر مساجد تک بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات ہیں، اگر ہم ان باتوں کو سنیں گے اور مانیں گے تب ہی اپنے بچوں کو اس سے محفوظ کرسکیں گے، ملک بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات قصور میں رپورٹ کیے گئے، قصور کے بعد راولپنڈی، لاہور، پاک پتن، فیصل آباد اور کوئٹہ ہے، اس پورے معاملہ میں سب سے حیران کن بات ہے کہ ہمارے ملک میں اس بارے میں عمومی سوچ حقائق سے ہٹ کر ہے ، اس حوالے سے این جی او آہنگ کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف لڑکیاں بداخلاقی کا شکار ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف لڑکیاں نہیں بلکہ لڑکے بھی بداخلاقی کا شکار ہوتے ہیں، یہ کڑوا سچ ہے لیکن اسے سننا ہوگا۔
جہاں تک قصور کا تعلق ہے تو اس شہر میں کمسن بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کے واقعات کافی عرصے سے جاری ہیں اور چند ماہ کے دوران12 معصوم بچیاں ہوس کا نشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کی جا چکی ہیں۔زینب کیس کے مجرم عمران کے سوا کوئی ملزم گرفتار ہوانہ سزا ملی 2015 ء کااسکینڈل بھی پولیس کارکردگی پر سیاہ دھبہ ہے،بزرگ صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہ کی دھرتی قصور جہاں کسی دور میں علم و نور کے چشمے پھوٹتے تھے گزشتہ کچھ عرصے سے اس شہر کا نام بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات کے باعث ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں آتا رہا ہے۔2015 میں سامنے آنے والا قصور اسکینڈل بھی پولیس کارکردگی پر سیاہ دھبہ ہے جس میں ملزمان لڑکوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر اہلخانہ کو بلیک میل کرتے۔ اس سیکس اسکینڈل کی گرد ابھی پوری طرح بیٹھی نہ تھی کہ شہر میں وقفے وقفے سے بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کئے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -