حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر19

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر19
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر19

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم سے نفرت کی خاص وجہ یہی تھی کہ وحدہ‘ لاشریک کا تصوّر اُن کی عقل میں نہیں آتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب رسالتمآبؐ جسموں کے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات کر رہے تھے تو یہ لوگ کیسے جزبز ہو رہے تھے۔ ابولہب بھی موجود تھا۔ وہ نہایت تضحیک آمیز لہجے میں محمدﷺ کی باتوں کا مذاق اُڑا رہا تھا۔ اس دن اُبّی ابن خلف کہیں سے انسانی ہڈی کا ایک بوسیدہ ٹکڑا لے آیا تھا۔ اُسے اپنی انگلیوں سے چُورا چُورا کرتے ہوئے وہ سرورِ عالمﷺ سے کہنے لگا:

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 18 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ 
’’تم اسے کہتے ہو کہ یہ ہڈی دوبارہ اپنی اصلی حالت میں انسان کے جسم کا حصہ بنا کر اٹھائی جائے گی؟۔ اس سے بنے گا انسان دوبارہ؟‘‘
اور یہ کہتے ہوئے اس بدبخت نے ہڈی کے چُورے کو اپنی ہتھیلی سے پھونک مار کر رسولِ خداﷺکے چہرے پر اُڑا دیا۔ رسول کریمﷺ نے نہایت تحمّل سے اپنا چہرہ صاف کیا اور ابنِ خلف سے مخاطب ہوئے:
’’جس نے ایک دفعہ انسان کو تخلیق کیا ہے، وہی اُسے دوبارہ بنائے گا‘‘۔
اس کے بعد وہ سورۃ بنی اسرائیل کی پچاسویں اور اکیاونویں آیتیں پڑھتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔
ابولہب کا چہرہ غیظ و غضب سے لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ اُس کا بھاری بھرکم وجود غصے سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں اس سے ہمیشہ خائف رہتا تھا۔ اُس دن جب اُس کے غصے سے گویا زمین لرز رہی تھی، وہ مجھے اور بھی خوفناک لگا۔ شیطان میں بھی شاید تھوڑا بہت حلم ہو مگر اس شخص میں اس کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ ابنِ خلف اور ابولہب یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ اُن کی دنیاوی اہمیت تو شاید آخرت میں نہ منتقل ہو لیکن اُن کے وجود کا شاید کوئی حصہ وہاں پہنچ جائے۔
میں جس جس کافر سے ملاہوں اُس کی منطق میں، میں نے تکبر کی ایک جھلک ضرور دیکھی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی عزت و منزلت قلتِ فکر کی مرہون منت ہے اور اس کی کج کلاہی محض اس کی کج فہمی پر قائم ہے وہ غیب پر یقین لانے کا تو اہل نہیں ہوتا تھا مگر دلیل یہ دیتا تھا کہ زندگی صرف یہاں کی زندگی ہے اور جو مر جاتا ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ مرنے کے بعد اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی آخرت زیرِ زمین، ایک قبر ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔
اس ماحول میں ہماری چھوٹی سی بے وسیلہ جماعت سب کے لئے تفریح اور استہزا کا سامان بنی ہوئی تھی۔ وہ ہمارا مذاق اُڑاتے، ہم پر پھبتیاں کہتے، ہمیں طعنے دیتے، ہمیں طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے، ہم پر نفرتوں کی بوچھاڑ کرتے، ہم پر غلاظتیں پھینکتے اور ہماری باتوں کو شراب کے پیالوں میں غرق کرتے رہتے تھے۔ غلاظتیں دھل جاتی تھیں لیکن اپنے نبیِّ مکرمﷺ کی توہین ہمیں خون کے آنسو رُلاتی رہتی تھی۔ یہ ہماری برداشت سے باہر تھا کہ ایک شخص جو خالقِ ارض و سما کا محبوب ہو، فرشتے جس کا احترام کرتے ہوں، سارا مکہ جس کے حُسنِ اخلاق اور انصاف پسندی کا معترف ہو، چند راہ گم کردہ بندوں کے ہاتھوں رسوا ہو۔ ہمیں لگتا تھا کہ روشنی کی راہ میں کچھ حائل ہو گیا ہے لیکن رسولِ کریمؐ یہ سب کچھ نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ سہتے رہتے تھے۔ صبر پیغمبروں کا ہتھیار بھی ہے اور اُن کی ڈھال بھی۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے۔ مجھ ناچیز کو یہ دعویٰ نہیں تھا۔ ایک دفعہ عکرمہ اور چھ اور آدمیوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ سب میرے گرد کھڑے ہو گئے، ایک دائرے کی صورت میں۔ سب خاموش کھڑے مجھے گھورتے رہے، مجھ پر انگشت نمائی کرتے رہے، کوئی لفظ نہیں، کوئی آواز نہیں۔ سب کے چہروں پر ایک شرارت آمیز طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ میں خوف زدہ ہو گیا، پتہ نہیں اُن کا کیا ارادہ ہے۔ میں دائیں طرف مڑا تو بائیں طرف سے کسی نے میری پسلیوں میں انگلیاں چبُھودیں۔ اُدھر دیکھا تو دائیں طرف سے یہی حرکت ہوئی۔ چاروں طرف سے انگلیاں چبُھنے لگیں تو میں اُن کے درمیان لٹو کی طرح گھومنے لگا۔ وہ قہقہے لگاتے رہے، میں اُن کے نرغے میں بے بس اُن کے اشاروں پر اِدھر اُدھر اُچھلتا رہا۔ پھر مجھے اسی حالت میں چھوڑ کر سب ہنستے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ انہیں مجھ جیسے سابق غلاموں سے نمٹنا آتا تھا۔
آج میں سوچتا ہوں کہ کفارِ مکہّ کی نفرت کا ایک جواز اور بھی تھا۔ یہ انسانوں کی بدنصیبی ہے جو تقریباً ایک کلئے کی حیثیت رکھتی ہے کہ جب اُن کے سامنے صداقت سر اٹھاتی ہے تو وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اُس کا سر قلم کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں، جیسے اُن کے اندر کوئی عفریت داخل ہو گیا ہو۔ انسانوں کو حق کی پہلی جھلک ہمیشہ معاندانہ لگتی ہے۔ اُسے دیکھتے ہی اُن کے اندر نفرت کا ایک سیلاب اُمڈ پڑتا ہے اور وہ پاگلوں کی طرح اُس کی بیخ کنی کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔(جاری ہے)

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں