پاک سعودی تعلقات ، اک اہم موڑ

پاک سعودی تعلقات ، اک اہم موڑ
پاک سعودی تعلقات ، اک اہم موڑ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایکسپریس وے سے اسلام آباد میں داخل ہوں تو دور سرسبز پہاڑوں کے دامن میں چار بلند مینار آسمان پر نظریں جمائے دکھائی دیتے ہیں۔ان چار میناروں کے بیچ تکونی خیمے سے مشابہہ سفید رنگ کی بے مثل عمارت ہے۔ ترکی معمار کے نقشہ کو جب حقیقت میں ڈھالا گیا تو فیصل مسجد وجود میں آئی۔ شاہ فیصل کی تجویز پرکئی ملین سعودی ریال سے تعمیر ہونے والی یہ مسجد سعودی عرب کا پاکستان کے لئے گراں قدر تحفہ ہے۔

تعمیر کے بعد چند برسوں تک اسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد کا اعزاز حاصل رہا۔شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں مالی امداد فراہم کی۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام آپ کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا۔

1974ء میں شاہ فیصل کی اسلامی سربراہی میں شرکت کے بعد کراچی کی معروف شاہراہ کو آپ کے نام پر شاہراہ فیصل کا نام دیا گیا۔شاہ فیصل کے دور میں پاک سعودی تعلقات میں پختگی اور پائیداری کو نئی جہت ملی۔
تاریخی لحاظ سے سعودی عرب ان اولین ممالک میں تھا،جنہوں نے پاکستان کی خود مختاری کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کئے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کا معاہدہ 1951ء کے اوائل میں طے پایا تھا جو آج تک قائم ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران سعودی عرب پاکستان کی مدد کے لئے میدان میں آیا۔ سعودی عرب نے سابق سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے وقت بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس کے تاریخی اجلاس کو سعودی عرب کی جانب سے مکمل حمایت حاصل تھی۔

دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لئے مالی عطیہ دیا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔ 2005ء کے تباہ کن زلزلے،2010ء اور 2011ء کے سیلاب کے وقت بھی پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ 2014ء میں سعودی عرب نے پاکستان کو 200 ٹن کھجور کا تحفہ دیا۔

سعودی عرب نے آزمائش کی گھڑیوں میں پاکستان کا ساتھ نبھایا۔ فراخدلی کے ساتھ پاکستان کی مدد کے لئے آگے آیا۔پاکستان بھی دوستی نبھانے میں کسی معاملے پر پیچھے نہ رہا اور ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دیا۔
سعودی عرب پاکستان کی توانائی کی ضرویات کو پورا کرنے کے حوالے سے سر فہرست ہے۔ 25سعودی کمپنیاں اس وقت پاکستان میں کام کر رہی ہیں، جبکہ 350پاکستانی سرمایہ کار سعودی جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہیں۔ سعودی جامعات میں سینکڑوں پاکستانی تعلیمی وظائف پر علم سے سیراب ہو رہے ہیں۔ دُنیا میں سعودی عرب واحد ملک ہے،جہاں85 لاکھ اوور سیز پاکستانیوں میں سے 22 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ہیں۔

یہ کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سعودی عرب میں رہائش پذیر پاکستانی سب سے زیادہ زرِمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ انہوں نے 18۔2017ء میں 4.8 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجوایا جو کہ دُنیا بھر سے آنے والی مجموعی ترسیلات زر کا 29 فیصد بنتا ہے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنوری2017ء میں 41اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کے سربراہ مقرر کئے گئے تھے۔

سعودی قیادت کی جانب سے یہ ذمہ داری افواج پاکستان پر بے پناہ اعتماد کا ثبوت ہے۔ سعودی فضائیہ کو بھی پاکستان فضائیہ کے تجربہ کار آفیسر تربیت دیتے رہے ہیں۔ 1982ء میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے تھا، جس کے مطابق پاک فوج سعودی فوج کو تربیت اور دفاعی مدد فراہم کرے گی،جو آج بھی فافذ العمل ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2018ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس دورے کے بعد گرمجوشی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ وفد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا جس کے دوران وفد گوادر بھی گیا۔

اکتوبر 2018ء میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کی درخواست پر پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے پیش نظر برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل کئے،جبکہ تین سال میں 3ارب ڈالر کا تیل بھی پاکستان کو ادھار دینے کا وعدہ کیا ہے۔

اس معاہدے پر اسلام آباد میں دستخط ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تجارت کے بے پناہ امکانات کے باوجود تجارتی حجم صرف 3.4 بلین ڈالر ہے اور اس کا توازن بھی سعودی عرب کے حق میں ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے سعودی عرب سے 3.1 بلین ڈالر کی مالیت درآمد کیں،جبکہ برآمدات کا حجم صرف 316.7 ملین ڈالر رہا۔پاکستانی برآمدات کا زیادہ تر حصہ ٹیکسٹائل اور غذائی مصنوعات پر مشتمل ہے۔

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات زیادہ تر تیل اور اس سے منسلک مصنوعات پر مشتمل ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔اگر پاکستان سعودی عرب کوگوادر کی بندر گاہ میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر پایا تویہ خوش کن خبر ہو گی۔

آنے والے دن یہ واضح کریں گے کہ پاکستان سعودی وفد کی آمد سے کیا فوائد حاصل کر پایا۔ نئے پاکستان کی تعمیر کے خوش نما وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے لازمی ہے کہ ان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو معاشی تعلقات کی بہتری کے لئے زینہ بنایا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -