ہمارے یہ قابلِ احترام ’’کرپٹ‘‘ اساتذہ کرام(1)

ہمارے یہ قابلِ احترام ’’کرپٹ‘‘ اساتذہ کرام(1)
ہمارے یہ قابلِ احترام ’’کرپٹ‘‘ اساتذہ کرام(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بظاہر تمام مخلوقِ خدا، ظاہر پرست ہے اور باطن کو بچشمِ خود دیکھ کر اور بدستِ خود ادا کرکے بھی اس کو فراموش کر دیتی ہے۔ ہم جب کسی کے بارے میں کوئی ایسی منفی خبر سنتے یا پڑھتے ہیں جو بظاہر قابلِ یقین نہیں ہوتی تو سخت حیران ہوتے ہیں اور اس کو انہونی سمجھتے ہیں۔ یہ ادراک نہیں کرتے کہ ایسی بے شمار ’’انہونیاں‘‘ ہمارے اپنے باطن میں پوشیدہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام ہم سے سرزد ہوئیں اور ہم نے نادانستہ یا دانستہ ان کو بھلا دیا۔

لیکن اگر کوئی ویسا ہی گناہ کسی اور سے سرزد ہوا تو دانتوں میں نہ صرف انگلیاں داب لیں بلکہ اس کی تکذیب میں طرح طرح کی دلیلیں لانے پر اتر آئے۔ میرے ساتھ یہ ’وقوعہ‘ بارہا پیش آیا ہے۔ مجھے کسی کے بارے میں کسی قابلِ گرفت یا لائقِ تعزیر واقعہ کا پتہ چلا ہے تو دوسروں کو (شائد) مرعوب کرنے کی خاطر تین تین بار کانوں کو ہاتھ لگا کر ’توبہ توبہ‘ کی گردان کی ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے میرے باطن کا چور میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ: ’’بے وقوف نہ صرف اس جیسا بلکہ اس سے بھی بدرجہا بدتر گناہ تو تم نے خود کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔ اب کسی دوسرے کا گناہ سن کر اور دیکھ کر توبہ تائب کیوں ہو رہے ہو؟‘‘۔۔۔ پروردگارِ عالم کی ایک صفت پردہ پوشی بھی ہے۔

وہ ذاتِ اقدس ستاّرِِ عیوب ہے،وہ ہمارے اَن گنت عیوب کو چھپاتی اور ہمیں موقع دیتی ہے کہ اس کی پیروی کریں اور دوسروں کی غلط کاریوں کو بھی سرعام نشر نہ کریں۔ لیکن ہم ایسے عاقبت نااندیش ہیں کہ سب کچھ سن کر اور دوسروں کے کردار میں کیڑے نکلتے دیکھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا اپنا رواں رواں ان کیڑوں مکوڑوں سے اَٹا پڑا ہے۔
انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ہم ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور جب وہ منظرِ عام بر نہیں آتا تو سمجھتے ہیں کہ وہ گناہ نہیں، معمولات میں سے ایک فعل ہے۔ انسان کی یہ ارادی خود فراموشی اس کا ایک کڑا امتحان ہے۔ روئے زمین پر کوئی انسان ایسا نہیں (خاتم المرسلین ؐ کے سوا) جس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو لیکن اس پردہ پوش، ستارِ عیوب اور رحیم و کریم ہستی کو دیکھیں کہ وہ کسی رنگ، نسل ، عقیدہ ، مذہب ، مسلک اور زبان کو نہیں دیکھتی۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمیں ایک اور موقع دیتی ہے۔۔۔ خدائی عظمت کا یہ مظاہرہ ہر انسان نجانے روزانہ کتنی بار دیکھتا ہے لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ کالم اگرچہ طویل ہو جائے گا لیکن اسے گوارا کر لیں۔۔۔ عمر خیام ایک بڑا شاعر، فلسفی ،ریاضی دان اور ستارہ شناس تھا۔ حسن پرست ایسا کہ باید و شاید۔۔۔ ایک دفعہ مہ و شوں اور دوشیزاؤں کے جھرمٹ میں شغلِ بادہ نوشی فرما رہا تھا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جس کی تصویر کشی اقبال نے اس شعر میں کی ہے:
یادِ ایا مے کہ خوردم بادہ ہا باچنگ ونے
جامِ مے در دستِ من ، مینائے مے در دستِ وے

[وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب میں مختلف آلاتِ موسیقی کے درمیان بیٹھ کر شراب نوشی سے دل بہلایا کرتا تھا۔ مہ جبین ساقیوں کا ایک ہجوم میرے اردگرد رہتا تھا۔ میرے ہاتھ میں جام ہوتا تھا اور ان کے ہاتھوں میں شراب کی صراحیاں۔۔۔]
عمر خیام بھی ایک روز ایک ایسی ہی محفل میں مصروفِ مے نوشی تھا کہ اچانک موسم تبدیل ہو گیا۔ آندھی آ گئی بارش ہوئی اور اولے گرنے لگے۔ تیز ہواؤں نے ان خیموں کو اکھاڑ دیا جن میں یہ مجلس برپا تھی۔ صراحیاں میزوں سے اچھل کر زمین پر آ گریں اور جام و ساغر ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئے۔ گل بدن حسینوں کی چیخیں نکل گئیں۔ آسمانی بجلی کی چمک اور کڑک اتنی خوفناک تھی کہ یہ ساری محفلِ ناؤ نوش بکھر کر رہ گئی۔ ایک آدھ گھنٹے بعد جب طوفان تھما تو مطربوں نے خیام کے حکم پر اس کی ایک فارسی رباعی گانی شروع کر دی جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے خدا تو نے میرا شراب کا پیالہ توڑ دیا اور میری عیش و طرب کی محفل درہم برہم کر دی۔ میری مئے ناب (خالص شراب) کو زمین پر انڈیل دیا۔۔۔ میرے منہ میں خاک، کیا تو دیوانہ یا بے ہوش ہے؟۔۔۔‘‘
رباعیاتِ عمر خیام میں یہ رباعی اس طرح درج ہے۔
ابریقِ مئے مرا شکستی ربّی
وہ برمن درِ عیش را بہ بستی ربّی
برخاک ریختی مئے نابِ مرا
خاکم بدہن ، مگر تو مستی ربّی؟
اس کے بعد کا واقعہ یہ ہے کہ شاعر کی اس دریدہ دہنی کو سن کر خدا کا غضب اس کے عفو کو محیط ہو گیا اور عمر خیام کا چہرہ بگڑ گیا۔ سرخ و سفید رنگ سیاہ ہو گیا، نقوشِ رخ اپنی جگہ پر نہ رہے اور جسم کی کھال لٹکنے لگی۔ رقاص لڑکیوں اور خواتین نے جب یہ بھیانک منظر دیکھا تو وہ پہلے ہی سمٹی سمٹائی اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھیں، اب تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ عمر خیام نے پوچھا کہ اب طوفانِ باد و باراں تو رک چکا ہے۔ یہ خواہ مخواہ کی چیخ و پکار چہ معنی دارد؟ کسی بھی مصاحب کو حقیقتِ حال بتانے کی جرات نہ ہوئی۔ آخر ایک حسینہ نے اپنا پرس کھولا، دستی آئینہ نکالا اور خیام کے سامنے کر دیا۔ شاعر نے جب اپنی یہ درگت بنی دیکھی تو بجائے اس کے کہ نادم ہوتا اور اپنی یا وہ گفتاری سے توبہ کرتا، اس نے الٹا سازندوں کی طرف اشارہ کیا اور یہ رباعی کہی:

ناکردہ گناہ در جہاں کیست؟ بگو
و آنکہ گناہ نہ کرد چوں زیست؟ بگو
من بد کنم تو بد مکافاتِ دہی
پس فرق، میان من و تو چیست؟بگو

اے خدا! یہ بتا کہ اس دنیا میں کون ایسا شخص ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا؟۔۔۔ اور اگر کوئی ایسا ہے بھی تو وہ زندہ کیسے پھر رہا ہے؟۔۔۔ میں نے ایک بُرا کام کیا اور تو نے بُرا بدلہ دے دیا۔ پس بتا کہ میرے اور تمہارے درمیان فرق کیا رہ گیا؟۔۔۔]
کہتے ہیں یہ سننا تھاکہ رحمتِ خداوندی کو جوش آ گیا۔ شاعر کا چہرہ اپنی گزشتہ حالت پر لوٹ آیا اور چمکنے دمکنے لگا۔ کسی ساقی نے پھر آئینہ اس کے سامنے کر دیا۔ عمر خیام نے چہرہ دیکھا اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور تیسری رباعی کہی جو شکرانہ ء کردگار پر حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت ذہن سے اتر رہی ہے البتہ اس کا لبِ لباب مغل دور کے ایک فارسی شاعر نے اس شعر میں سمیٹ دیا ہے:
عصیانِ ما و رحمتِ پروردگارِ ما
آنرا نہائیتے ست ، نہ ایں رانہایتے
[ہمارے گناہوں اور ہمارے پروردگار کی رحمتوں میں سے کسی کی بھی کوئی انتہا نہیں۔]
بندے اور اس کے خالق کا معاملہ ایسا سیدھا سادہ بھی ہے اور پیچ در پیچ بھی کہ اس کی تشریح نہیں کی جا سکتی۔ عمر خیام کی رباعیات کے ترجمے دنیا کی اکثر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کے ایک سے زیادہ تراجم موجود ہیں لیکن جس ترجمے کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ فٹزجیرالڈ کا ترجمہ ہے۔ جی چاہتا تھا کہ درج بالا دونوں رباعیوں کا انگریزی ترجمہ بھی قارئین کے سامنے رکھوں ۔

لیکن پھر خیال آیا کہ جس موضوع کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ گن کی سشت سے نکل کر اوپر نیچے یا اِدھر اُدھر ہو جائے گا۔ اور یہ موضوع ایسا ہے جس پر دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ 13 فروری 2019ء کے روزنامہ ڈان کا صفحہ نمبر15میرے سامنے ہے اس میں چارکالموں پر مشتمل ایک مفصل خبر چھپی ہے جس کا کیپشن (Caption) ہے: ’’نیب، پنجاب یونیورسٹی کے تین اساتذہ کا ریکارد منگوانا چاہ رہی ہے‘‘۔۔۔ اور اس کے نیچے ایک ذیلی عنوان یہ بھی ہے: ’’یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر نیب کے ساتھ پلی بارگین (Plea Bargain) میں شامل ہو چکے ہیں‘‘۔
میرے لئے یہ دونوں خبریں بہت حیرت انگیز تھیں۔ میڈیا کے قارئین و ناظرین / سامعین کو معلوم ہو گا کہ گزشتہ برس اکتوبر میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک محترم استاد کو اس طرح ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لانے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا ان کا جرم اتنا ہی خوفناک تھا کہ ان کے فرار ہونے کا خطرہ تھا اس لئے اس کو پیش بندی کر لی گئی تھی۔

پروفیسر صاحب کی ضمانت ہو گئی تھی اور اب نیب نے ان کے دورِ وائس چانسلری (2008ء تا 2016ء) کے دوران تین اساتذہ کی تقرریوں اور ان کو بے جا مراعات سے نوازنے کا الزام لگایا ہے۔ نیب نے ان اساتذہ کا ریکارڈ اور وہ فائلیں بھی طلب کر لی ہیں جن میں ان متذکرہ بالا تین اساتذہ (شاہد کمال، عبدالخالق اور اسسٹنٹ پروفیسر عائشہ اشفاق) پر بے جا نوازشات کی تفصیل درج ہے۔دروغ برگردنِ راوی، ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے دور میں 550پوسٹوں پر ایسے اساتذہ / اہلکاروں کو تعینات کیا جو 17گریڈ اور اس سے اوپر کے لوگ تھے۔

یہ تمام تقرریاں غیر قانونی بتائی جا رہی ہیں۔ ان کا کیس بہرحال اب چلے گا۔ فائلیں جب نیب کے سامنے رکھی جائیں گی تو معلوم ہو سکے گا کہ آیا وائس چانسلر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے یا نہیں کیا۔ لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ انہی ایام (اکتوبر 2018ء) میں میڈیا پر ڈاکٹر صاحب کے حق میں اتنا شور و غوغا مچایا گیا تھا کہ سننے اور دیکھنے والوں کو نیب اہلکاروں کی عقل و دانش پر ماتم کرنے کا وافر جواز نکلتا تھا۔
اس خبرکے ساتھ ہی سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر اکرم چودھری کے کیس کی خبر بھی تھی کہ انہوں نے نیب کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور اپنے ’جرم‘ کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان پر لاہور اور منڈی بہاؤ الدین میں یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس کھولنے کا الزام تھا۔ اس کیس میں یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) راؤ جمیل، لاہور کیمپس کے سابق CEO میاں جاوید، منڈی بہاؤ الدین کیمپس کے CEO وارث ندیم، ان کے ایک اور ساتھی نعیم اور ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن پر کروڑوں روپوں کی کرپشن اور خوردبرد کا الزام ہے۔

ان دونوں کیمپس کے طلباء کے ساتھ بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ ان کو تکمیلِ کورسز کے بعد کوئی ڈگری نہ مل سکی۔ اب نیب نے اعلان کیا ہے کہ ان تینوں کو پلی بارگین (Plea Bargain) کے تحت 11کروڑ روپوں کی رقم لے کر رہا کر دیا گیا ہے۔ ملزموں نے اعترافِ جرم بھی کیا ہے اور شترے شفیق نے 4کروڑ 76لاکھ، وارث ندیم نے 2کروڑ اور اکرم چودھری نے 75لاکھ روپے واپس جمع کروا دیئے ہیں:
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -