معصوم نوجوان کو اس کی محبوبہ نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، انتہائی دکھی کہانی

معصوم نوجوان کو اس کی محبوبہ نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، انتہائی دکھی ...
معصوم نوجوان کو اس کی محبوبہ نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، انتہائی دکھی کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) جارح اورتندخو مردوں کے خواتین کو مغلوب رکھنے اور ان پر تشدد کرنے کی خبریں توہم سنتے رہتے ہیں۔ اب برطانیہ سے ایک جارح مزاج لڑکی کے اپنے بوائے فرینڈ پر تشدد کی ایسی کہانی منظرعام پر آ گئی ہے کہ سن کر ہی تمام مردکانپ جائیں۔ میل آن لائن کے مطابق برطانوی شہر سٹورٹ بائی کی 22سالہ پٹائٹ جورڈن ورتھ نامی یہ لڑکی 2012ءمیں کالج میں 22سالہ الیکس سکیل سے ملی، دونوں میں دوستی ہوئی جو محبت میں بدل گئی اور وہ ایک ساتھ رہنے لگے۔ کچھ عرصے بعد ہی جورڈن نے الیکس پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا۔بظاہر معصوم سی نظر آنے والی جورڈن نے الیکس کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی، اس کا موبائل فون اور فیس بک اکاﺅنٹ تک اپنے قبضے میں لے لیا اور آئے روز اس پر تشدد کرتی، کئی بار اس نے الیکس پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دیا اورایک بار تو چھری کے وار کرکے اسے شدید زخمی کر ڈالا۔


جورڈن نے الیکس کا اس کے دوستوں اور خاندان سے رابطہ مکمل منقطع کر دیا تھا اور کئی سال تک اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتی رہی۔ بالآخرگزشتہ سال ہمسایوں کی شکایت پر پولیس نے چھاپہ مار کر الیکس کو بازیاب کرایا۔ پولیس نے جورڈن کو گرفتار کرکے لوٹن کراﺅن کورٹ میں پیش کیا جہاں سے اسے 7سال قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے متعلق میل آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے الیکس سکیل کا کہنا تھا کہ ”اس سارے عرصے میں مجھے ایسے لگتا تھا کہ وہ میرے بعض اعضاءہی کاٹ ڈالے گی، کئی بار کھولتا ہواپانی ڈالے جانے کے باعث میرا آدھے سے زیادہ جسم جل چکا تھا۔ ان سالوں میں میرا وزن بھی 20کلوگرام سے زائد کم ہو گیا۔“


الیکس نے اپنے آنسوﺅں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ” میں نے اس کے ساتھ جو تین سال گزارے وہ ذہنی و جسمانی تشدد کی بدترین مثال تھے۔میرے خاندان والوں کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے لیکن انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ مجھ پر بدترین جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔جورڈن نے مجھے ہر کسی سے الگ کر رکھا تھا۔اس نے مجھ پر چھری سے حملہ بھی اسی شبے میں کیا تھا کہ میں نے اپنے فیملی سے فون پر بات کی ہے، حالانکہ میں نے نہیں کی تھی۔مجھے نہیں لگتا تھا کہ میرے بگڑ چکے زخم ٹھیک ہو پائیں گے لیکن میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر میرا علاج کرنے میں کامیاب رہے۔“