سینیٹ انتخابات اور الجھی ہوئی صورتحال
وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان تو سب کو یاد ہے ”جب حکومت سے باہر تھے تو ہمیں کچھ اور نظر آتا تھا۔ حکومت میں آکر دیکھا تو کچھ اور نظر آیا“۔ وزیراعظم عمران خان اس بات کا اعتراف بھی کرچکے کہ ہمارے پاس حکومت کا تجربہ نہیں لیکن آہستہ آہستہ سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ابھی تک اچھے دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہو رہے۔ ایک ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے دانشور بھی اس وقت ملک کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ہر شخص کے ذہن میں تبدیلی کا نعرہ گونج رہا ہے لیکن عملی طور پر تبدیلی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ جس کا نعرہ تحریک انصاف نے لگایا تھا۔ ہر شخص مسائل میں مزید الجھتا جا رہا ہے۔ اوپر سے سینیٹ انتخابات بھی ایسے ہی الجھے ہوئے ہیں کہ ہر کوئی سمجھنے سے قاصر ہے کہ اوپن بیلٹنگ ٹھیک ہے یا خفیہ رائے شماری بہتر طریقہ انتخاب ہے۔ سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کیا گیا۔آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس صدارتی آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومتی بدنیتی قرار دیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں ایوان بالا کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔منگل کے روز سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی انتخابی سکیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نئی تجاویز طلب کی ہیں۔سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے قابل شناخت بیلٹ پیپرز کی مخالفت کی ہے او رکہا کہ ان کی بیلٹ پیپرز کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں او رماضی میں سپریم کورٹ بیلٹ پیپرز پر نشان لگوانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے ووٹوں کی خریدو فروخت سے متعلق منظر عام پر آنے والی ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ 2018ء سے ویڈیو موجود ہے لیکن اس پر کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور الیکشن کمیشن کو کہا،انتخابات میں ہر قسم کی کرپٹ پریکٹسزکو روکے۔اب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اجلاس طلب کیا ہے تا کہ ویڈیو کا جائزہ لے کر فرانزک تجریہ کروائے یا نہ کروانے کا فیصلہ کیا جائے۔اپوزیشن کے لئے یہ خبر اچھی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبدار رہنے کی یقین دہانی کرا دی ہے حکومت کے لئے یہ ایک بری خبر ہے کیونکہ اب کوئی ان کے لئے الہ دین کا چراغ لے کر نہیں کھڑا ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین ہے کہ معاملات تبدیل ہوچکے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ آئندہ الیکشن میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اس کی امید اب مسلم لیگ ن کو بھی ہوچکی ہے حال ہی میں میڈیا کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ فوج اور سیاسی جماعتوں کے درمیان پس پردہ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی ان جماعتوں کے رہنماؤں سے۔ فوجی ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں اور جو لوگ فوج اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان روابط کی بات کرتے ہیں ان کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لے کر آئیں۔ فوج کی طرف سے یہ یقین دہانی پی ڈی ایم میں موجود تمام جماعتوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اب ان جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ سے مثبت توقعات ہیں اور وہ امید کرتی ہیں کہ ادارہ اس اہم سیاسی ایونٹ کے موقع پر غیر جانبدار رہے گا۔
اپوزیشن کے ایک رہنما کے مطابق حکمران جماعت پی ٹی آئی بہت پریشان ہے اور اسے ڈر ہے کہ اس کے ووٹ ٹوٹ جائیں گے اور اب حکومت سپریم کورٹ سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ سینیٹ الیکن میں ا وپن بیلٹ کی اجازت دی جائے۔ قانون میں آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ الیکشن میں رائے شماری خفیہ ہی رہے گی۔ خفیہ رائے شماری وہ ہوتی ہے جس میں ووٹ کی شناخت نہیں کی جا سکتی او ر یہ طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں وضع کیا گیا ہے اور نہ الیکشن کمیشن قانون کے تحت ایسے امیدواروں کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے جو پارٹی کے موقف کے خلاف جاتے ہوئے کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ تاہم اب سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے شفاف الیکشن کرانے کے سلسلے میں تجاویز بنائی ہیں کہ امید وار کو کوئی پیسہ نہ لینے کے بیان حلفی دینا ہوگا اور اس کے ساتھ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو بھی بطور ووٹر بیان حلفی جمع کرانے کی تجاویز الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائیں گی۔دیکھتے ہیں اب سپریم کورٹ تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا فیصلہ سناتی ہے۔