پٹرولیم کے نرخوں نے متاثر کیا۔ جھگڑے شروع!

 پٹرولیم کے نرخوں نے متاثر کیا۔ جھگڑے شروع!
 پٹرولیم کے نرخوں نے متاثر کیا۔ جھگڑے شروع!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے ہیں اور اب تو وفاقی ادارہ ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) یکایک متحرک ہو گیا ہے۔ جو فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج نے تحریر کیا وہ اس لحاظ سے چشم کشا ہے کہ جو ایف آئی آر لاہور میں صبح نو بجے درج ہوئی اس کے تحت گرفتاری کے لئے اسلام آباد  میں چھاپہ دس بجے مارا گیا اور یہاں جو بھی ہوا اب میڈیا پر موجود ہے بہر حال عدالتی فیصلے کے بعد بھی محسن بیگ پولیس کی تحویل میں ہیں اب ان کو ایک دوسری ایف آئی آر کے تحت گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا پھر ان کے صاحبزادے اور ڈرائیور بھی گرفتار کر لئے گئے کہا جاتا ہے کہ گھر پر بار بار چھاپہ مارا گیا اور بہت کچھ تحویل میں لیا گیا۔
یہ صفحات گواہ ہیں کہ میں نے کبھی بھی اور کسی بھی لمحے بدتہذیبی کی حمایت نہیں کی بلکہ ہمیشہ نہ صرف مخالفت کی بلکہ مذمت بھی کی اکثر میں نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر بڑے راہنماؤں کی گفتگو کا ذکر بھی کرتا ہوں کہ وہ کس انداز اور تہذیب سے دوسروں کو مخاطب کرتے تھے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ اب کس کے بارے میں کیا کہیں۔ یہ جو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوتا ہے اس کے حوالے سے سلیم صافی بہت کچھ لکھ چکے ہیں مجھے اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں کہ میں ان حضرات میں شامل نہیں ہونا چاہتا جو حقیقی مسائل سے چشم پوشی کرنے کا وتیرہ اختیار کئے ہوئے ہیں اس لئے میں تو سب سے ایک ہی عرض کروں گا کہ گنبد میں جب آپ بولیں گے تو آواز پلٹ کر آئے گی اس لئے سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے الفاظ سے اجتناب کیا جائے جو توہین کے زمرے میں آتے ہوں۔ 


یہ اب معمول اور روز کا دکھ ہے، کہاں کہاں اور کب کب روئیں گے۔ گزارش کی کہ واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور اب ایف آئی اے کے سرگرم ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان اداروں کے اختیار والے حضرات کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے اور دباؤ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ محسن بیگ کے مدعی یا مستطیث تو خود وزیر درجہ اول مراد سعید ہیں، میں اپنے عدالتی رپورٹنگ کے تجربے کی بناء پر یہ عرض کر سکتا ہوں کہ یہ ہونہار وزیر جب اس مقدمہ میں گواہ اول (استغاثہ) کے طور پر پیش ہوں گے تو ان کو جرح کا سامنا کرنے میں بہت دشواری ہو گی، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس ایک بات کا فیصلہ تو ہو جائے گا اور شاید کچھ بہتر ہی ہو۔


معذرت کہ پھر قلم پھسل گیا۔ سیاسی راہنما حضرات کی تو زبان پھسلتی ہے۔ ہم قلمکار ہیں اس لئے قلم ہی پھسلے گی، عرض کرنا تھی کہ آج صبح جب معمول کے مطابق گھر سے دفتر آنے کے لئے نکلا تو حسب سابق رکشا والے سے کہا کہ وہ سپیڈو بس سٹاپ تک لے چلے تو اس نے فوراً کہا 70 روپے ہوں گے۔ یہ کل فاصلہ ڈیڑھ سے پونے دو کلومیٹر کا ہے جو پیدل بھی طے ہو جاتا ہے۔ تاہم کوشش ہوتی ہے کہ وقت کی بچت ہو جائے اس لئے اس کے لئے رکشا والے کو پچاس روپے ادا کرتا تھا جو 30 روپے سے 50 روپے تک آئے تھے اور اب معمول چل رہا تھا جب میں نے رکشا والا سے کہا کہ بھائی اس معمولی فاصلے کے لئے تو اتنا ریٹ نہ بڑھاؤ تو جواب میں جو سننا پڑا وہ ناقابل اشاعت ہے اگر تحریر کروں تو ایف آئی اے کا بھی منتظر رہنا ہوگا۔ بہر حال موقف یہ تھا کہ پٹرول یکایک 12 روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ مہنگا کر دیا گیا ہے تو ہم کیا کریں۔ کہاں سے خرچہ پورا کریں پھر ایک لمبی تفصیل تھی کہ رکشا بھی کرانے پر ہے مالک کو روزینہ دینا اور پھر بچوں کے لئے آٹے، دال کا انتظام کرنا ہے۔ میں نے ڈرائیور صاحب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مسافر یا سواری کے لئے بھی تو مہنگائی ہوئی اور آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا اور پھر اس کے بجائے کہ تم کھڑے رہو، بہتر ہے کہ پہیہ چلاتے رہو، یوں آمدنی تو ہوتی رہے گی۔ اس لئے اضافہ کرنا ہے تو جائز حد تک کرو۔ اس کے بعد محترم ڈرائیور کی طرف سے ناقابل اشاعت باتیں ہی تھیں۔ فیصلہ ایک دوسرے ڈرائیور نے کیا جو سواری لینے کے لئے پنجاب یونیورسٹی جا رہا تھا اس نے مجھے بٹھایا اور 50 روپے میں مرکزی سڑک (وحدت روڈ) پر اتار گیا۔ جہاں سے سپیڈو بس میں معمول کے مطابق دفتر پہنچا، یہ بھی عرض کر دوں کہ پہلے معمول کے مطابق اس فیڈر روٹ کی بس پانچ سے سات منٹ کے بعد آ جاتی تھی اب اس میں بھی فرق آ گیا کہ صبح کے وقت تو یہ فرق پندرہ منٹ تک چلا گیا۔

لیکن ایک بجے کے بعد یہ آدھ سے پون گھنٹہ تک ہو جاتا ہے کہ پی ایس ایل کرکٹ ٹرافی کے لئے جو مفت شٹل سروس پارکنگ سے سٹیڈیم کے لئے شروع کی گئی وہ انہی بسوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ بسیں روٹوں ہی سے حاصل کی جاتی ہیں جب تین چوتھائی بسیں اس مقصد کے لئے لے لی جائیں تو ایک چوتھائی رہ جانے سے مسافروں کا جو حال ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگا لیں۔ ایک تو انتظار کی کوفت اس پر کرونا کی وباء کے دور میں بس کھچا کھچ بھر جاتی ہے۔ اس کے باوجود چند مسافروں کو اگلے آدھ پون گھنٹے تک دوسری بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے یوں ان بھیڑ، بکریوں (عوام) کو اصل مسائل سے اسی طرح ہٹایا جا سکتا ہے کہ ان کو سر کی بجائے کسی نازک حصے کی پریشانی میں مبتلا کر دیا جائے تاکہ سرکا مسئلہ تو بھول جائے۔ میں الجھ گیا ہوں یہ مجبوری ہے کہ صبح صبح گھر کے لئے ضروری سودا بھی لے کر دینا ہوتا ہے۔ یہاں تو حضرات منتظر ہوتے ہیں کہ جونہی کوئی ایسا عمل ہو تو وہ اپنا حصہ بھی وصول کر لیں یہ رکشا کا ذکر تھا کہ خبر کے مطابق ٹرانسپورٹر حضرات نے از خود کرایوں میں ایک سو روپے سے دو سو روپے فی مسافر تک کرایہ بڑھا دیا اور یہی حال بار برداری کا ہے اور جب یہ سارا بوجھ پڑے گا تو اسے صارف اور عام آدمی پر ہی منتقل ہونا ہے اور یہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ یونہی جگالی کرتے رہ جائیں گے اور پھر عادی ہو جائیں گے۔


معذرت خواہ ہوں کہ بھٹک گیا اب اپنے بھائی فواد چودھری کی ایک بات کا ذکر کر کے ختم کرتا ہوں، انہوں نے دلیل کے ساتھ بات کی کہ وکیل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں جب اپوزیشن اعتراض کرتی ہے، وہ یہ بھی تو بتائیں کہ اگر عالمی منڈی میں پٹرولیم 90 ڈالر فی بیرل ہو جائے تو قیمت بڑھائے بغیر کیسے پٹرول منگوایا جائے۔ ان کا یہ فرمانا بجا ہے کہ جب عالمی مارکیٹ میں کسی بھی وجہ سے ایسا ہوگا تو اثرات نیچے تک آئیں گے تاہم میں ان کو یاد دلاؤں کہ پٹرولیم عالمی مارکیٹ میں 105 ڈالر فی بیرل بھی ہوا تھا اور پاکستان میں فی لیٹر 84 روپے تک تھا۔ اب تو 90  ہوا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ تب ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر ایک سو سے 104 روپے تک تھی اب یہ ڈالر 176 روپے کا ہے۔ عرض کرتا ہوں ڈالر کو نیچے لے آئیں پٹرول سستا ہو جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -