بے بسوں کی محبت، بے کسوں کا خلوص آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

بے بسوں کی محبت، بے کسوں کا خلوص آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت
بے بسوں کی محبت، بے کسوں کا خلوص آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ روز ایک ایسا خوش گوار اور منفرد واقعہ پیش آیا جو اس کالم کو لکھنے کی وجہ بنا۔ بظاہر تو وہ ایک عام سا واقعہ ہے، لیکن اگر اسے دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اس سے ہمارے کئی سماجی و اخلاقی سوالات کا جواب مل جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ لاہور کی ایک مشہور شاہراہ کے قریب فٹ پاتھ پر ایک ضعیف خاتون گزشتہ دو ماہ سے آتے جاتے نظر آتی ہیں، جو فیس ماسک بیجتی ہیں۔ ایک دن نہ جانے کیا خیال آیا کہ رک کر ان سے پوچھا کہ اماں جی آپ اتنی بوڑھی ہیں، پھر اتنی سردی میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر محنت مزدوری کیوں کر رہی ہیں؟ اماں جی نے جواب دیا کہ وہ طویل عرصہ قبل بیوہ ہو گئی تھیں، بچے چھوٹے تھے، ان کی خاطر شادی بھی نہیں کی، بس بچوں کو پالنے میں مصروف ہو گئی، کندھوں پر کپڑے اٹھا کر سڑک پر پھر پھر کر بچوں کے لئے روزی کماتی رہی، بیٹی کی شادی بھی کر دی، لیکن بدقسمتی سے وہ بھی بیوہ ہو کر اپنے دوبچوں سمیت میرے پاس آ چکی ہے اور اب مَیں ان نواسے نواسیوں کا بھی بوجھ اٹھا رہی ہوں۔ بظاہر تو یہ ایک عام سی کہانی ہے، جو ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے، لیکن کہانی سناتے ہوئے اماں جی کے چہرے پر جو درد تھا، جو سچائی تھی، مگر ان سب محرومیوں کے باوجود اماں جی کے چہرے پر جو ایک عجیب قسم کی طمانیت تھی، وہ بے حد غیر معمولی لگی۔


 مَیں نے ان سے کہا کہ مجھے آپ اپنا بیٹا سمجھیں اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو ضرور بتائیں، خصوصاً دوائی وغیرہ کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا،کیونکہ اس ضعیف العمری میں تقریباً ہر انسان کو خصوصاً اگر وہ محنت کش اور غریب ہے تو دوائی کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ اس کے بعدمَیں نے آتے جاتے کبھی کبھار ان کی تھوڑی بہت مدد کرنا شروع کر دی۔ گزشتہ روز جب ان سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے مجھے ایک شاپر پکڑاتے ہوئے کہا کہ مَیں اپنے بیٹے کو تحفہ دے رہی ہوں،گھر جا کر اسے کھولنا،مَیں نے دریافت کیا کہ اماں جی اس میں کیا ہے؟ تو وہ بولیں: ایک غریب ماں کا اپنے بیٹے کے لئے تحفہ ہے، ان کے اس محبت بھرے فقرے میں نہ جانے کیا مٹھاس تھی کہ مَیں نے فوراً وہ تحفہ شکریہ کے ساتھ وصول کر لیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر شاپر کھولا تو اس میں ایک عدد پینٹ اور شرٹ کا کپڑا اور ایک عدد ٹائی تھی، مَیں نے اندازہ لگا یاکہ ان تحائف کی مالیت کسی بھی طرح 15 سو روپے سے کم نہیں ہو گی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو محنت کش ضعیف خاتون دن بھر کی مشقت سے بمشکل تین چار سو روپے کما پاتی ہے، اس نے کتنی مشکل سے یہ تحائف خریدے ہوں گے، نہ جانے کب سے وہ اپنے منہ بولے بیٹے کے لئے تحفہ خریدنے کے لئے پیسے جمع کر رہی ہو گی؟


ہم لوگ اکثر اس انسان کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں جو مالی طور پر امیر ہو، لیکن اماں جی کے اس عمل سے اندازہ ہوا کہ اصل امیری جیب کی نہیں،بلکہ ظرف کی ہے۔ معاملہ روپے پیسے کا نہیں،بلکہ فطرت قلب کا ہے،ورنہ دیکھنے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ بڑے بڑے سیٹھ لوگ اپنے ملازمین سے لین دین کرتے ہوئے ایسی ایسی ڈنڈیاں مار جاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، اگر کوئی ملازم ناگزیر وجوہات کی بناء پر بھی چھٹی کر لے اور کسی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اپنی تنخواہ میں سے کچھ ایڈوانس مانگ لے تو ہمارا رویہ عمومی طور پر بہت تلخ ہو جاتا ہے۔ ہمارے دل کی سختی ہمیں اس کے ساتھ نرمی برتنے سے روکتی ہے، ایسے موقع پر ہمارے اندرکا انسان کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ کاش ہمیں انسان کو پڑھنے کا فن آ جائے، کاش ہم محض چہرے مہرے، وضع قطع اور لباس سے کسی انسان کے رتبے کا اندازہ لگانے کے بجائے اس کے قلب و ذہن میں موجود اس اعلیٰ ظرفی کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کریں، کاش ہم اعلیٰ انسانی اوصاف کی موجودگی یا عدم موجودگی کو کسی انسان کی برتری یا پستی کا پیمانہ سمجھیں، اے کاش ہم دنیاوی دولت کے پیمانے سے کسی کی عزت کرنے کے بجائے اس کی روح کے اندر جھانک کر اس کی حقیقی عظمت کا تعین کرنا شروع کر دیں۔


مَیں اکثر یہ سوال اپنے دوستوں سے پوچھتا رہتا ہوں کہ ایک طرف تو ہمارے ہر شہر میں مساجد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، مہنگے مہنگے تعلیمی ادارے بن چکے ہیں جہاں سے ہر سال ہزاروں لاکھوں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر نکل رہے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم ان کی اخلاقیات کی بہتری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بھی کچھ کر رہے ہیں یا نہیں؟جس طرح کی تعلیم ہماری درسگاہوں میں آج دی جا رہی ہے،اس کی بدولت اچھی ملازمت تو مل جاتی ہے، لیکن کیا وہ شخص معاشرے کا ایسا کارآمد شہری بھی بن رہا ہے جو اپنے اردگرد پھیلی جہالت اور غربت سے بے اطمینانی محسوس کرکے اس کا کوئی سدباب کرنے کا سوچے؟ ہم سارا دن بے شمار مذہبی اور نیم مذہبی پیغامات سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شیئر کرتے رہتے ہیں، ہم میں سے ہر کوئی اپنے تئیں ”حاجی ثناء اللہ“ بن کر محض اس قسم کے پیغامات شیئر کرکے جنت کمانے میں مصروف ہے،لیکن کیا کوئی ہے جو ہمیں بتائے کہ سماج کی بھلائی اور سماجی خدمت ہی وہ سیڑھی ہے جو ہمیں جنت تک لے جا سکتی ہے۔


 معاملہ یہ ہے کہ ”سماج“ ہمارے نصاب کا موضوع  کبھی رہا ہی نہیں۔ ایک انسان کا وجود، اس کے اخلاقی اور سماجی تقاضے کیا ہیں؟ اس کا بھی ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی ذکر نہیں، آپ خود سوچیں جس معاشرے میں شرح خواندگی بھی شرمناک حد تک کم ہو، غربت بھی سرچڑھ کر بول رہی ہو، وہاں انسان اور انسانیت کی قدر کون جانے گا؟ وہاں تو ہر طرف افراتفری کا عالم ہو گا، بعینہ یہی صورت حال وطن عزیز کی بھی ہے،جہاں ان جیسی ضعیف خواتین اور مرد اپنی دو وقت کی روٹی کمانے کے چکر میں دن بھر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر محنت مزدوری پر مجبور ہیں ……لیکن اس دن بھر کی مشقت کے بعد ان کو ملتا کیا ہے؟ محض چند سو روپے جو ان کی انتہائی ضرورت کی چیزوں، مثلاً خوراک اور دوائیوں کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ کاش کوئی سماج اور اس میں انسان کی اہمیت کو نصاب کا حصہ بنانے کا سوچے کہ انسان ہی تو ہے جو کسی بھی معاشرے یا ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہوتا ہے۔ خدارا اس کی حفاظت کیجئے، اس کے وجود کو معاشرے کے لئے باعث زحمت نہیں، باعث رحمت بنانے کا سوچیں۔خصوساً معاشرے کے مجبور، غریب اور بے بس افراد کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے منصوبوں کا آغاز کریں جن کی بدولت ان کی باقی زندگی قدرے اطمینان سے گزر سکے۔

مزید :

رائے -کالم -