کیا عمران گرفتار ہوں گے؟

 کیا عمران گرفتار ہوں گے؟
 کیا عمران گرفتار ہوں گے؟

  


سابق وزیراطلاعات فواد حسین چودھری نے انتباہ کیا ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو حالات خراب ہوں گے، ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ الزام بھی لگایا کہ وفاقی وزیر داخلہ ایک اور ماڈل ٹاﺅن بنانا چاہتے ہیں جبکہ رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں تو عمران خان کی گرفتاری بنتی ہے تاہم ہر کارروائی آئین اور قانون کے دائرہ کار میں ہو گی۔
اس مکالمے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ گزشتہ روز پولیس نے زمان پارک جانے والے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں اس کے بعد تحریک انصاف کی صوبائی اور مقامی قیادت کینال روڈ پر پہنچ گئی اور کارکنوں کے ساتھ مل کر نہ صرف رکاوٹیں ہٹا دیں بلکہ نعرہ بازی بھی کی، پولیس نے تعرض نہ کیا اس لئے کوئی تصادم نہیں ہوا، اسی بنیاد پر فواد چودھری کا ٹویٹ سامنے آیا اس طرح حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ عمران خان کی غیر حاضری کے باعث انسداد دہشت گردی عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ کرکے ان کو حاضر ہونے کے لئے ہدایت کی تھی۔ عمران خان کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا اور حفاظتی ضمانت کی درخواست کی ، موقف یہ تھا کہ وہ اسلام آباد عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں اس لئے ان کو حفاظتی ضمانت دی جائے۔ یہ درخواست سماعت کے لئے پیش ہوئی تو فاضل عدالت نے درخواست دہندہ (عمران خان) کو پیش کرنے کے لئے کہا وکیل کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ علیل ہیں اور ڈاکٹروں نے ان کو سفر سے منع کیا، ان کے وکیل کا یہ موقف بھی تھا کہ عمران خان کو ”ٹی ٹی پی“ والوں سے جان کا خدشہ ہے اور خود حکومت نے الرٹ جاری کر رکھا ہے۔ اس پر عدالت نے پیشکش کی کہ انسپکٹر جنرل پولیس کو بلا کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ محفوظ طور پر عدالت میں پیش کرنے کا انتظام کریں۔ وکلاءکی بھرپور کوشش کے باوجود فاضل عدالت نے غیر حاضری میں حفاظتی ضمانت نہ دی اور ہدایت کر دی کہ انسپکٹر جنرل پولیس تحریک انصاف والوں سے ملاقات کرکے بحفاظت عدالت تک آمد و رفت یقینی بنائیں۔ عدالت نے بلا پیش ہوئے ضمانت سے انکار کیا اور عمران خان پیش نہ ہوئے یوں یہ درخواست مسترد ہو گئی اس فیصلے کے بعد ہی عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے بات ہونے لگی اور پولیس کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرنا اور تحریک انصاف والوں کو ہٹا دینا اس سلسلے کی کڑی ہے۔


جہاں تک سیاسی رہنماﺅں کی گرفتاریوں کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ پرانا ہے، حتیٰ کہ قیام پاکستان کے بعد جب پنجاب میں پاکستان بنانے والوں کے آپس کے تعلقات خراب ہوئے تو نواب افتخار حسین ممدوٹ بھی گرفتار کر لئے گئے اور یہاں ممدوٹ ،دولتانہ کشمکش تاریخ کا حصہ ہے خود عمران خان کے اتحادی شیخ رشید گرفتاری کے بعد جیل یاترا کر چکے اور ضمانت پر رہائی کے بعد واپس باہر آئے ہیں، وہ کہتے تھے کہ ہتھکڑی ان کا زیور اور جیل سسرال ہے اور یوں وہ زیور سمیت سسرال سے ہو کر باہر آ گئے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ سیاسی رہنما اور قیادت کبھی گرفتاری سے نہیں گھبراتی بلکہ جیل جانا ان کی شہرت میں اضافے کا باعث بنتا ہے اس سلسلے میں نوابزادہ نصراللہ (مرحوم) کی بات سنہری حروف والی ہے، وہ نکلسن روڈ والے اپنے دفتر میں رہتے تھے، ان کے کمرے میں ان کا سوٹ کیس ”ریڈی“ ہوتا تھا، پوچھا تو کہنے لگے ”سوٹ کیس تیار یوں ہے کہ اگر بلاوا آئے تو فوری گرفتاری دے کر چل دیں“ اور ایسا کئی بار ہوا اور عمران خان نے تو جیل بھرو تحریک کا بھی اعلان کر رکھا ہے جس کی تاریخ ابھی تک نہیں دی گئی۔ اس صورت حال میں اگر انتظامیہ کسی کیس میں ان کو قانون کے مطابق گرفتار کرنا چاہتی ہے تو ان کو کیا اعتراض ہے۔ عدالتوں سے تو ان کو مسلسل ریلیف مل رہی ہے وہ متعدد مقدمات میں ضمانت پر ہیں اور ان میں بیشتر عدالت میں پیش ہوئے بغیر ہی منظور ہوئی تھیں۔ ان کی گرفتاری کی نوبت نہیں آئی اور یوں زمان پارک پر ایک تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، تحریک انصاف والوں نے یوں بھی کینال تک روڈ کے کنارے اور آدھی سڑک تک شامیانے لگا رکھے ہیں، اس وجہ سے ٹریفک میں بھی رکاوٹ ہوتی ہے، یہاں سے شہریوں کو گزرنے میں دقت کا سامنا ہے۔


عمران خان عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، اسی دوران ان کی جماعت کی طرف سے دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے تاریخ دینے پر زور بھی دیا جا رہا ہے اس سلسلے میں بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔ فاضل عدالت (سہ رکنی بنچ) نے سماعت کی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں رکاوٹ کے مسئلہ پر چیف جسٹس سے ”سووموٹو“ لینے کی درخواست کر دی ہے یوں ایک طرف تو زمان پارک کشمکش بن گئی دوسری طرف عدالتی جنگ جاری ہے، ان حالات میں پولیس کی کارروائی (راستے بند کرنے کی) تحریک انصاف کےلئے اشتعال کا باعث بنی ہے۔ یوں کشیدگی بڑھ گئی ادھر ایک اور اپ سیٹ ہوا، جب گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے لاہور کے ڈی پی او غلام محمد ڈوگر کا تبادلہ منسوخ کرکے ان کو بحال بھی کر دیا ہے، اب وہ پھر سے لاہور پولیس کے سربراہ ہو گئے ہیں۔ غلام محمد ڈوگر نے اس وقت شہرت پائی، جب چودھری پرویز الٰہی کی وزارت علیہ کے دوران وفاق نے ان کی خدمات واپس لیں اور چودھری پرویز الٰہی نے ان کو روک لیا اور انہوں نے بھی چارج چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، اس پر ان کو معطل بھی کیا گیا اور وہ سروس ٹربیونل سے بحال ہو گئے تھے نگران دور میں جو تبادلے ہوئے ان کے دوران ڈوگر پھر سے تبدیل کر دیئے گئے، وہ عدالت عظمیٰ پہنچ گئے جہاں سے ان کو ریلیف مل گئی ہے یوں ایک پولیس افسر جس کی ”غیرجانبداری +جانبداری“ واضح ہو چکی تھی وہ عدالتی احکام سے واپس آ گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب وفاقی حکومت کیا کارروائی کرے گی کہ ان حالات میں پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان بن جائے گی۔
اب تاحال صورت حال یہ ہے کہ زمان پارک پر تحریک انصاف کے کارکن جمع ہیں اور لیڈر حضرات تقریریں کررہے ہیں جو نشر بھی ہو رہی ہیں، یوں کشیدگی موجود ہے، ایسے میں جب جی ایم ڈوگر بحالی کا حکم نامہ لے کر آئیں گے تو عبوری حکومت کی کارروائی یا کارکردگی کا بھی پتہ چلے گا، حالات بہترحال کشیدہ ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -