ہم آدھ پو ن گھنٹہ درختوں کی پناہ میں رہے خوف سے کپکی طاری تھی، بارش کا زور ٹوٹا، بجلی اور بادلوں کی کڑک کم ہوئی تو نکلے اور دوڑتے ہوئے گھر پہنچے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:84
جمعہ والے دن ہم اتفاق فاؤنڈری والوں کے گھر کے باہر بنے چھوٹے سے سوسائیٹی پارک پہنچ جاتے جہا ں ہمارا اتفاق برادرز سے میچ ہو تا۔(اتفاق برادرز نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے چاچا زاد بھائیوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم تھی، جن میں حنیف، اسلم، خالد،سراج(چڑی)، یونس وغیرہ اور ایک ان کے چچا تھے۔ جن کانام ذہن سے محو ہو گیا ہے)شہباز شریف نے آنا اور کہنا”پہلی باری ہماری ہے کیوں کہ گراؤنڈ ہماری ہے۔“ یوں ٹاس کیے بغیر ان کی پہلی باری ہوتی۔(میچ سے پہلے اس بات کا بھی فیصلہ ہوتا کہ لاسٹ مین آؤٹ ہے یا نہیں۔ اکثر یہ آؤٹ ہی ہوتا تھا۔ بچگانہ کر کٹ کے اپنے اصول تھے) شہباز شریف تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے آتے اور دوسری تیسری بال پر خرم انہیں کلین بولڈ کر دیتا۔(خرم بہت اچھی سونگ باؤلنگ کرتا تھا۔ بعد میں وہ اوپنگ بیٹسمین بن گیا۔) بولڈ ہو کر شہباز شریف کہتے؛”مجھے دوسری باری دو۔“ ہم بچے انکار کر تے تو وہ بلا مار کر سبھی وکٹ گرا دیتے اور کہتے؛”چلو پھٹو۔“ ہم کھیل کے شوق میں دوبارہ وکٹ لگاتے، انہیں دوسری باری دیتے، وہ پھر دوسری تیسری بال پر آؤٹ ہو جاتے۔
دن میں رات؛
ایک روز خرم اور میں سکول سے واپس آ رہے تھے۔ اچانک چھائے بادل گھنگور گھٹا میں بدلے۔ دن گھپ رات میں بدل گیا۔ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑکنے ہر طرف خوف طاری کر دیا تھا۔ ہم گھر کے راستے میں تھے کہ زور دار بارش برسنے لگی اور ہم دونوں رونے لگے۔ہمیں لگا کسی نے اٹھا کر ہمیں 107 بی کے سامنے لگے بڑے بڑے درختوں کے نیچے پھینک دیا ہو۔ہوا تیز اور زناٹے دار تھی۔ہم آدھ پو ن گھنٹہ ان درختوں کی پناہ میں تورہے لیکن خوف سے ہم پرکپکی طاری تھی۔ بارش کا زور ٹوٹا، بجلی اور بادلوں کی کڑک کم ہوئی تو ہم درختوں کی پناہ سے نکلے اور دوڑتے ہوئے خرم کے گھر پہنچے۔(میرا گھر اس کے گھر سے پہلا آتا تھا لیکن امی جی اپنی نانی کے گھر میکلیگن روڈ گئی ہوئی تھیں) ڈر سے ہمارا برا حال تھا۔ کپڑے بھیگے، جسم کپکپا اور ہونٹ سیٹی بجا رہے تھے۔اماں (خرم کی والدہ۔ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین) نے مجھے خرم کے کپڑے پہننے کو دئیے اور خرم کی بڑی بھابی نگہت نے مجھے اور خرم کو گرم گرم دودھ کا پیالہ لا کر دیا۔اس سے ہماری کپکپی کچھ کم ہوئی۔پھر کھا نا کھلایا۔ ویسی مائیں بھی نہیں رہیں اب۔ اپنے بچوں کے دوستوں کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی سمجھتی تھیں۔ عید پر جتنے پیسے اماں خرم کو دیتی تھیں اتنے ہی مجھے بھی ملتے تھے۔ یہی حال میری امی جی کا بھی تھا۔وہ بھی خرم اور بابر کا ایسے ہی خیال کرتی تھیں۔بابر کی والدہ اور میری والدہ کی اچھی دوستی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔