عالمی ادبی کانفرنس

عالمی ادبی کانفرنس
عالمی ادبی کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اکادمی ادبیات پاکستان کا بنیادی کام پاکستان میں ادب کے فروغ اور ادیبوں، شاعروں کی فلاح و بہبود کے لئے کردار ادا کرنا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان نے مختلف ادوار دیکھے ہیں، لیکن کچھ عرصہ قبل تو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اکادمی ادیبات ایک غیر فعال ادارہ بن چکا ہے اور یوں محسوس ہوتا تھا،جیسے اکادمی ادبیات پاکستان کا ایک سیاسی اکھاڑہ ہے اور اس کی پہچان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے حوالے سے ایک معروف ادارے کی بن گئی تھی۔ جو کوئی آتا، اس کی تمام تر توجہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی دورے کرنے پر مرکوز رہتی۔مَیں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کا طالب علم اور ایک ادبی تنظیم کا نائب صدر ہوتا تھا۔اس حوالے سے ادبی محفلیں سجانے اور شرکت کرنے کے بھرپور مواقع میسر رہے ۔ادیبوں کو برادر ملک ایران کے دورے بھی کرائے گئے۔اس حوالے سے آقائے صادق گنجی، جو ان دنوں خانہ فرہنگ ایران کے انچارج ہوتے ،کا کردار کلیدی رہا،لیکن انہیں پاکستان ہی میں شہید کردیا گیا۔
بہرکیف بات ہورہی تھی اکادمی ادبیات پاکستان کے کردار کے حوالے سے تو اس بابت یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہا کہ جن مقاصد کے تحت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا، انہیں یکسر فراموش کردیا گیا تھا۔اس حوالے سے اکادمی خوش قسمت رہی کہ اسے عبدالحمید جیسا محب وطن اور ایک صاف ستھرا شخص ،جو انگریزی اور اردو لٹریچر کا وسیع مطالعہ رکھتا ہے،چیئرمین کی صورت میں میسر ہوا۔انہوں نے آتے ہی اکیڈمی ادبیات کو اس راستے پر گامزن کرنے کی کوشش شروع کردی ،جن کے لئے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔دس اور گیارہ جنوری کو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں منعقدہ عالمی ادبی کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ،جس میں نہ صرف یہ کہ ملک کے طول و عرض سے شاعر اور ادیب حضرات مدعو کئے گئے،بلکہ بیرون ملک سے دیگر زبانوں میں لکھنے والے شعراءو ادباءبھی شریک ہوئے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کے مضافاتی علاقوں سے ادیبوں کے اس اکتھ نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو پھولوں کے ایک ایسے گلدستے کا روپ دیا،جس کو صحیح معنوں میں ”پاکستان“ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی اپنے برجستہ اور دلچسپ خطاب میں اس کی نشاندہی کی کہ آپ لوگ صحیح معنوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادیب اور شاعر”سانجھے“ ہوتے ہیں،ہم انہیں تقسیم نہیں کرنا چاہتے۔ گویا ان کا کہنا تھا کہ ادیب برادری ملک کی یکجہتی اور خوبصورتی کی علامت ہے۔وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے یہ کہہ کر محفل کو کشتِ زعفران بنا دیا کہ جس محفل میں بانو قدسیہ، افتخار عارف، عطاءالحق قاسمی، مستنصر حسین تاڑ، انور مسعود اور بشریٰ رحمن جیسی شخصیات موجود ہوں، مَیں نے وہاں کیا صدارتی خطاب کرنا ہے؟.... بہر طور چیئرمین اکادمی ادبیات عبدالحمید نے عالمی ادبی کانفرنس میں وزیراعظم کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی ادیب برادری کے لئے مختلف منصوبوں اور مالی معاونت کے حوالے سے کچھ رقوم کی مد میں اضافے کو یقینی بنایا۔ وزیراعظم نے اکیڈمی ادبیات کے احاطے میں فیض احمد فیض آڈیٹوریم کی تکمیل کے لئے تین کروڑ کی گرانٹ کی منظوری دی،جس سے کم از کم اکیڈمی اس قابل ہو جائے گی کہ ادبی کانفرنسیں اپنے ہی آڈیٹوریم میںمنعقد کروا سکے۔
حالیہ عالمی ادبی کانفرنس نیشنل لائبریری کے آڈیٹوریم میں ہونا تھی، لیکن عین موقع پر مقامِ تقریب تبدیل کرنا پڑا اور تقریب وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہوئی، جس میں متعدد شرکاءشرکت نہ کرسکے۔جو ظاہر ہے اکیڈمی ادبیات کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنا۔ بہرکیف تقریب کے دوران اس امر پر ان ادیبوں سے معذرت کی گئی جو ہال میں نہ آ سکے۔اس شرمندگی کا ازالہ چیئرمین اکادمی ادبیات نے اس طرح سے بھی کردیا کہ وزیراعظم سے فیض احمد فیض آڈیٹوریم کے لئے گرانٹ منظور کروالی، اسی طرح ادیبوں کے لئے مختلف ایوارڈز کی مد میں دی جانے والی رقوم بھی ڈبل کردی گئیں۔
اس طرح کی ادبی کانفرنسیں جہاں ادب کے فروغ کا باعث بنتی ہیں،وہاں ملک کے مختلف علاقوں میں مقیم ادیبوں کی ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا باعث بھی ہوتی ہیں۔وفاقی وزیر ثمینہ خالد گھرکی نے اپنے خطاب میں بہت خوبصورت بات کہی کہ ادیب پہلے مقامی ہوتا ہے ، پھر آفاقی بنتا ہے۔اتنی خوبصورت محفل سجانے پر اکیڈمی ادبیات مبارکباد کی مستحق ہے۔خدا کرے اکیڈمی یونہی ترقی کی منازل طے کرتی چلی جائے۔ ٭

مزید :

کالم -