غلطیاں، غلط بخشیاں اور اصل اشعار

غلطیاں، غلط بخشیاں اور اصل اشعار
غلطیاں، غلط بخشیاں اور اصل اشعار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سخت ٹینشن کی فضا میں ٹینشن کو دُور کرنے کے لئے، اچھے شعروں کو صحیح سیاق و سباق میں، نک سُک سے دُرست حالت میں پڑھنا، سُننا بھی ایک خوشگوار عمل ہے۔ بعض اچھے شعر، مشہورِ زمانہ شعر،اکثر لکھنے والے غلط سلط لکھ جاتے ہیں یا صحیح بھی لکھتے ہیں تو کسی کا شعر کسی کے نام لگا دیتے ہیں، ایسے میں کچھ اشعار کا تذکرہ آج کے کالم کااصل موضوع ہے۔ ملاحظہ ہوں غلطیاں، غلط بخشیاں اور تصحیح شدہ صورتِ احوال:۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا طاہر القادری نے جمعرات 10جنوری 2013ء کو ”دُنیا“ چینل میں جناب مجیب الرحمن شامی کے پروگرام میں ایک مشہورِ زمانہ شعر علامہ اقبال ؒ کے نام سے منسوب کر کے سنایا کہ:
تُندی ¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
جبکہ مَیں نصف صدی سے زائد عرصے سے اس شعر کو ”حق بہ حقدار رسید“ کے تحت حضرت علامہ اقبال سے چھڑانے اور اصل مالک کو پہنچانے کی تگ و دو میں لگا ہُوا ہوں،جس میں تادمِ تحریر کوئی کا میابی نہیں ہوئی، لگتا ہے آئندہ بھی ہونے کا امکان نہیں، میری کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔ یہ شعر جیسا کہ پہلے بھی بار بار لکھ چکا ہوں، حضرت علامہ کا ہر گز نہیں اُن کے ایک ہمعصر شاعر صادق سیالکوٹی ] سید صادق حسین کاظمی ایڈووکیٹ شکر گڑھ[ کا ہے۔ مرحوم کا اکلوتا شعری مجموعہ ”برگِ سبز“ کے نام سے شائع ہوا، مگر اب نایاب ہے، البتہ میرے پاس ہے ،کوئی میری ذاتی لائبریری سے استفادہ ہی نہیں کرتا۔
ماہنامہ ”کشمیر الیوم“ راولپنڈی کی اشاعت، ماہِ جنوری 2013ءمیں ”گرمی گفتار“ سے امتیاز جتوئی کے کالم میں ذیلی عنوان”کشمیری قیادت اتحاد کی ضرورت کا احساس کرے!“ کے تحت میر تقی میر کا ایک مشہور زمانہ مقطع اس طرح درج کِیا گیا ہے:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
 متعدد بار پہلے بھی اسی کالم میں تصحیح کر چکا ہوں کہ خدائے سخن میر کے اِس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ”سادہ“ نہیں ”سادے“ ہے اور دوسرے مصرعے میں میر نے ”لونڈے“ نہیں ”لڑکا“ لِکھا ہُوا ہے۔ صحیح شعر اس طرح ہے:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
معاصر روز نامہ ”جنگ“ لاہور کی اشاعت جمعتہ المبارک 4جنوری2013ءمیں فاضل کالم نویس منصور آفاق نے اپنے کالم ”دیوار پہ دستک“ کے ذیلی عنوان ”کل کیا ہو گا“ کے تحت آخری پیرا گراف کو مرزا غالب کے ایک مشہورِ زمانہ شعر پر ختم کیا ہے، مگر اس طرح:
دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بُتوں سے کیا فیض
اک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
جبکہ دوسرے مصرعے میں ہر عہد پر غالب، مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ”نجومی“ کا لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ ”برہمن“ کہہ رکھا ہے کہ اُس دور میں برہمن ہی ”جنم پتری“ تیار کیا کرتے تھے اور زائچہ بناتے تھے۔ یوں بھی ”بُتوں“ کے ساتھ”برہمن“ ہی جچتا ہے۔ مرزا غالب کا صحیح شعر یُوں ہے:
دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بُتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
الحاج طفیل احمد ہجویری قادری کی تصنیف ِ لطیف ”توقیر ِ سادات“ کے آغاز میں ایک شعر حضرت علامہ اقبال کے نام سے درج کِیا گیا ہے کہ:
دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشق ِ اہل بیت
ڈھونڈتا پھرتا ہے دامن ظل ِ حیدر ؑ کے لئے
تذکرہ بالا شعر مجھے توکلیات و باقیات ِ اقبال میں نہیں مل کا۔ کوئی ”ماہرین اقبالیات“ میں سے فاضل شخصیت میری رہنمائی کر سکے تو ممنون ہوں گا۔
ماہنامہ ”ضیائے آفاق“ لاہور کی اشاعت نومبر 2012ءمیں جناب شاہنواز فاروقی نے اپنے کالم ”کاغذ کے سپاہی“ میں ذیلی عنوان” خاموشی“ کے تحت ایک مشہور شعر جون ایلیا کے نام سے اس طرح درج کیا ہے:
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
پھر تشریح بھی کی ہے کہ:
”جون ایلیا کا یہ سفر خاموشی کے ایک اور پہلو کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس شعر کی روشنی میں دیکھا جائے تو خاموشی دراصل انسانی وجود میں کی جانے والی کھدائی Drilling ہے، اس کھدائی یا Diri lling کے بغیر زندگی کی معنویت اور اس کے حسن و جمال کا حصول ناممکن ہے بالکل اسی طرح جس طرح زمین کو گہرا کھودے بغیر میٹھا پانی حاصل نہیں کیا جا سکتا“....!
یہ تشریح اپنی جگہ خوب مگرا س کا کیا کِیا جائے کہ متذکرہ شعر جون ایلیا کا ہرگز نہیں اُن کے برادرِ بزرگ حضرت رئیس امروھوی کا ہے۔ا س غزل کا مقطع ہے:
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
روزنامہ ”نئی بات“ لاہور کی اشاعت، جمعتہ المبارک4جنوری2013ءمیں فاضل کالم نویس ابو نثر نے اپنے کالم ”نثر خند“ میں ذیلی عنوان ”ڈاکٹر، ڈاکٹر کو مارے ہے“ کے تحت مولانا اسماعیل میرٹھی کا ایک بہت مشہور شعر درج کیا ہے، مگر اس طرح:

اگر دو موزیوں میں دیکھے کھٹ پٹ
تو کر بچنے کی اپنے فکر جھٹ پٹ
جبکہ اسمٰعیل میرٹھی کا متذکرہ شعر درست شکل میں اس طرح ہے:
جبکہ دو موزیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر، جھٹ پٹ
 اے این پی (کراچی) کے رہنما شاہی سید نے ]جو کہ وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قاتل سَید اکبر کی طرح کے ”سَید“ ہیں ”سَِیّد“ ہر گز نہیں[ ایک بہت مشہور شعر کا حلیہ بگاڑ کر22دسمبر 2012ءکو ایک ٹی وی چینل پر بشیر احمد بلور کے تعزیتی پروگرام مَیں کچھ اِس طرح سُنایا:
ہر ایک چاہتا ہے بس میرا گھر نہ جلے
اور بے شک جل جائیں
جبکہ مرحوم پروفیسر شوکت واسطی کا یہ شعر صحیح اِس طرح ہے:
عجیب دوَر ہے ہر شخص یہ ہی سوچتا ہے
تمام شہر جلے، ایک میرا گھر نہ جلے
روزنامہ ”نوائے وقت“ کی اشاعت ، جمعرات 5جولائی2007ءمیں مستقل کالم ”سر ِ را ہے“ کے فاضل کالم نویس نے اِس طرح لکھا:
تمہیں کالی گھٹا کو بھی نہیں پہچاننا آیا،
نشیمن سے دُھواں اُٹھتا ہے تم کہتے ہو بادل ہے
جبکہ صحیح شکل و صُورت میں یہ مشہورِ زمانہ شعر دراصل یُوں ہے:
تمہیں کالی گھٹا کو بھی نہیں پہچاننا آیا،
مرے دل سے دُھواں اُٹھتا ہے تم کہتے ہو بادل ہے
اورکالم کے آخر میں اشعار کے سلسلے میں بعض محترم و مکرم ”اینکر پرسن“ کی طرف سے مختلف ٹی وی چینل پر پھیلائے گئے غلط سلط اشعار کی دُرستی اور غلط بخشی یعنی ”حامد کی پگڑی محمود کے سر“ والی رَوشِ پر اظہار حقیقت:
مشہورِ زمانہ شعر:
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
یہ شعر کشفی ملتانی کا ہے اسد ملتانی یا کسی اَور کا نہیں۔
اسد ملتانی کا مشہور زمانہ مطلع ہے:
رہیں نہ رِند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں

مزید :

کالم -