الیکشن کی جانب

الیکشن کی جانب
 الیکشن کی جانب

  

 اس وقت تمام راستے اگلے الیکشن کی جانب رہنمائی کر رہے ہیں۔حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر اور قانون کے مطابق شفاف ، آزاد اور غیر جانبدار طریقے پر منعقد ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی دعوت پر منعقدہ سیاسی پارٹیوں کے اجلاس کے بعد مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگلے انتخا بات کے شیڈول اور نگران سیٹ اپ کا اعلان کیا جائے، ان کایہ اعلامیہ سسٹم کو تقویت دینے کا باعث بنے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے ہر نازک وقت پر سسٹم کو بچانے اور اسے راستہ دینے کے لئے سر گرم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حالات میں ان کی دعوت پر اپوزیشن پارٹیوں کی مشاورت جمہوری نظام کے لئے تقویت کا باعث بنے گی ۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے بھی رپورٹ طلب کی ہے کہ کیا وہ کسی بھی وقت انتخابات کے انتظامات کے لئے تیار ہے تو الیکشن کمیشن نے یقین دلایا ہے کہ اس نے ہر لحاظ سے جملہ انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔

موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی ٹرم مکمل کرنے کے قریب ہے اور اب وہ کسی بھی وقت نئے انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے، سیاسی پارٹیوں اور ان کے امیدواروں نے انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے اور عوامی رابطے زوروں پر ہیں۔ مَیں ان سطور کے ذریعے اس امر پر زور دے رہا ہوں کہ آئندہ انتخابات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار اپنا انتخابی منشور مرتب کریں تاکہ ووٹروں کو پتہ چل سکے کہ ان کے کونسے مسائل کا شافی اور کارگر حل کس پارٹی اور کس امیدوار کے پاس ہے۔اس ضمن میں تعلیم اور صحت کے شعبے پر سیر حاصل بات ہو چکی۔توانائی اور روزگار کے شعبوں میں اصلاحات پر بھی گہرا غورو فکر ضرور ہونا چاہئے۔یہ بھی وقت کا تقاضا ہے کہ جو پارٹیاں وفاق اور صوبوں میں بر سر اقتدار رہ چکی ہیں وہ اپنا اپنا نامہ اعمال سامنے لائیں۔ انہوں نے پانچ برس میں کیا کچھ کیا اور کیا نہیں کیا، اس کی تفصیلات عوام کو فراہم کرنا ضروری ہیں۔ پانچ سال گزرنے کے بعد یہ تو عذر نہیں چلے گا کہ انہیں مسائل ورثے میں ملے کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد ورثے میں ملنے والے مسائل کو ہی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی ، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) نے وفاق میں مل کر حکومت چلائی، صوبوں میں بھی کم و بیش یہی پارٹیاں ہیں ، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی، اس طرح آنے والے الیکشن میں زیادہ تر انہی پارٹیوں کے امیدوار میدان میں اُتریں گے تو ان کے پاس اپنی کارگزاری کا گوشوارہ ضرور ہونا چاہئے۔انہوں نے جو کام کئے ، ان کا کریڈٹ لینے کا انہیں پورا پورا حق حاصل ہے، مگر جو مسائل لٹکتے رہے اور عوام کی پریشانی کا باعث بنے، اس پر یہ پارٹیاںجوابدہ بھی ہوں گی۔ ملکی تاریخ میں آئینی ٹرم کی تکمیل پرو ہ پھولے نہیں سما رہے،آئین کو تہتر کے دستور کی روح سے سرشار کرنا بھی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس امر کی بھی داد ملنی چاہئے کہ یہ مشکل کام مکمل قومی اتفاق رائے سے کیا گیا۔مالیاتی ایوارڈ کی بھی مفاہمت کے جذبے کے ساتھ منظوری دی گئی، صوبہ خیبر پختونخواہ کو اس کی اصل پہچان ملی اور گلگت بلتستان کو بھی منتخب اسمبلی اور عوامی حکومت کا تحفہ ملا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ موقف اپنایا۔اس جنگ میں قوم کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے شہادت کا مرتبہ پایا ،7ہزار فوجی جوان اور افسر بھی شہید ہوئے اور40ہزار کے لگ بھگ سویلین بھی اس کی بھینٹ چڑھے، لیکن قوم کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہی تھی کہ پہلی بار ایک منتخب حکومت فوجی آپریشن کے شانہ بشانہ کھڑی تھی، وفاق اورصوبوں کی حکومتوں نے اور بھی اچھے کام کئے جو انہیں عوام کے سامنے لانے چاہئیں، لیکن بجلی، گیس، سی این جی، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی گرانی اور نایابی نے لوگوں کے لئے سنگین مسائل کھڑے کئے، روزگار کے مواقع سکڑتے گئے۔ بد امنی میں اضافہ ہوا اور جان و مال کے لئے خطرات بڑھ گئے۔لسانی، نسلی، علاقائی، فرقہ وارانہ تعصبات نے قومی یکجہتی کو کمزور کیا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان مسائل پر کیوں قابو نہ پایا جا سکا۔ میرے خیال میں اس امر کا تجزیہ کرنے کے لئے غیر جانبدار تھنک ٹینک وجود میں آنے چاہئیں جو ان اسباب کا سراغ لگائیں کہ آیا مسائل کی سنگینی کی وجہ حکومتی نااہلی اور غفلت تھی یا پھر ان کا مداوا کسی اور وجہ سے ممکن ہی نہ تھا۔یہی تھینک ٹینک مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور کا بھی تجزیہ کر کے ووٹروں کی راہنمائی کا فریضہ ادا کریں کہ کس پارٹی کا منشور محض خالی خولی نعرے بازی کے مترادف ہے اور کس پارٹی نے سنجیدگی سے کوئی روڈ میپ پیش کیا ہے۔

ان دنوں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے نے بعض سوالات پیدا کر دیئے ہیں ۔میری رائے میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ یخ بستہ راتیں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر بسر کر رہے ہیں، ان کی کچھ تو آرزوئیں اور امنگیں ہوں گی جن کی تکمیل کے لئے وہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ان لوگوں کو سرے سے نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے با معنی مذاکرات کر کے ان کی قابل عمل خواہشات کا سراغ لگانا چاہئے۔دستور اور مروجہ قوانین کے تحت ان کے جن مطالبات کو پورا کیا جا سکتا ہو، ان پر بات کرکے ہی انہیں مطمئن کیا جا سکتا ہے ورنہ وہ جذبات اور خطابت کے جوش میں بہتے چلے جائیں گے اور اس جم غفیر کو سنبھالنا کارے دارد ہو گا۔ اسلام آباد کا موسم طوفانی رنگ اختیار کر رہا ہے، سردی اپنے جوبن پر ہے۔ اس کے پیش نظر دھرنے کے قائدین سے درخواست کی جانی چاہئے کہ وہ بچوں ، عورتوں اور عمر رسیدہ افراد کو واپس گھروں میں جانے کی اجازت دیں تاکہ وہ بیماریوں کا شکار نہ ہوں، جہاں تک ان کی تعداد اور گنتی کا تعلق ہے یا ان کے مطالبات کا مسئلہ ہے، وہ سب ریکارڈ پر آ چکا ، کیا ہی بہتر ہو کہ نامساعد موسم کے سامنے انہیں مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے ۔ان پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اصل تبدیلی جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں ، انتخابی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور وہ قومی دھارے کا حصہ بن کر الیکشن کی تیاری کریں اور اپنی مرضی کے امیدوار منتخب کر کے قومی ایوانوں میں لانے کی کوشش کریں۔ صدر آصف علی زرداری ، میاں محمد نواز شریف اور دیگر قومی قائدین کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو قومی دھارے میں شامل کریںاور انہیں قائل کریں کہ جمہوری نظام میں تبدیلی کا واحد راستہ ووٹ کے ذریعے ہے، طاقت اور دھونس سے غیر جمہوری عناصر ہی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ملک میں جمہوری نظام پہلے ہی لاغر دکھائی دیتا ہے، پانچ سال پہلے یہاں ایک ڈکٹیٹر کا راج تھا ، اس سے پہلے بھی تین ڈکٹیٹر ہو گزرے، جنہوں نے ہماری منزل کھوٹی کر دی اور ہم قیام پاکستان کے مقاصد سے دور ہٹتے چلے گئے، آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے، آج تو کم از کم ہوش کے ناخن لیں اور کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔یہ امر غنیمت ہے کہ اس وقت تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیاں ہم آواز ہیں اور وہ جمہوری استحکام کے حق میں آواز بلند کررہی ہیں، انہوں نے انتشار پسند قوتوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے، اس طرح اگلے الیکشن کے بر وقت اور منصفانہ انعقاد کی راہ ہموار ہو گئی ہے ، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان انتخابات کو بامعنی اور ملک و قوم کے لئے مفید بنایا جائے جس کے لئے ہر پارٹی کوا پنا منشور سامنے لانا چاہئے تاکہ ووٹر کو پولنگ بوتھ میں بہتر فیصلہ کرنے کا موقع مل سکے۔

مزید :

کالم -