شیطانی حرکت، عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ
فرانسیسی رسالے کی شرانگیزی پر مسلم دنیا متفقہ اور ٹھوس ردعمل ظاہر کیوں نہ کر سکی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں مسئلے کی جڑ تک جانا ہو گا۔ آیئے کسی راسخ العقیدہ مسلمان یا محض نام کے ہی مسلمان کے بجائے خود فرانس ہی کے سابق وزیراعظم کے بیان کو مدنظر رکھیں۔ ڈومینک ڈی ولیپاں نے چارلی ایبڈو پر حملے کو یورپ اور امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ، فرانس اور مغربی ممالک کو ’’خودسر،، کہہ کر مخاطب کیا۔ سابق فرانسیسی وزیراعظم نے امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اس نے مغربی ممالک کو ساتھ ملا کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کر کے عراق، افغانستان، لیبیا اور مالی میں ایسے اقدامات کیے جن سے دہشت گردی کو فروغ ملا، داعش بھی مغربی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے،کیا دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی باشعور شہری سابق فرانسیسی وزیراعظم کی اس رائے سے اختلاف کرسکتا ہے، ہرگز نہیں، اور تو اور اسلام کا نام لے کر دنیا بھر میں دہشت مچانے والی شدت پسند تنظیموں کا موقف بھی یہی ہے، ہاں مگر مسلم دنیا سے مذہبی بنیادوں پر اختلافات رکھنے والے عناصر اور نام نہاد روشن خیال لابی نے تو اپنا الگ ہی ایجنڈا وضع کر رکھا ہے، توہین رسالت جیسا قبیح فعل بھی سامنے آجائے تو مجرموں کی سائیڈ لی جاتی ہے، مسلمان پرامن احتجاج کریں تب بھی انہیں جنونی قرار دیکر الٹا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
اسلام دشمن لابی اور اس کے ایجنٹوں کو بخوبی علم ہے کہ کوئی بھی مسلمان حضور نبی اکرم ؐ اور کتاب اللہ کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا، پھر باربار انہیں کیوں اکسا یا جاتا ہے؟ شاید اس لئے کہ صلیبی جنگ کا تصور ان کے دل ودماغ میں رچ بس چکا ہے۔ اسلامی دنیا میں تباہ کاریاں مچانے والے سابق امریکی صدر جارج بش نے کھل کر ’’ کروسیڈ،،کا لفظ استعمال کیا تھا، مادی ترقی میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا امریکی اور مغربی استعمار آج بھی اسلام کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اسے دنیابھر میں کسی بھی مقام پر اسلام پسندوں کی حکومت گوارا نہیں۔ الجزائر ہو، افغانستان یا پھر مصر جہاں کہیں بھی اسلام پسندوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وہاں غدر مچا دیا گیا۔ ان حالات میں ان عناصر کو غلط کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے جو اسلامی دنیا کے خلاف ہونے والی ہر سازش کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے حواریوں کو قرار دیتے ہیں۔
تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کے کھوکھلے دعوے کر کے پراکسی صلیبی جنگ کو ہی پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ شدت پسند تنظیموں کی آڑ میں مختلف اسلامی ممالک پر حملے اسی حکمت عملی کی غمازی کرتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب نے اپنے طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ تیسری جنگ عظیم میں ان کا سامنا مسلم ممالک سے ہو گا اس لئے کسی کو دفاعی طور پر مضبوط نہیں ہونے دیا جا رہا۔ ایٹمی طاقت پاکستان ان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ دنیابھر کے مسلم ممالک کو براہ راست امریکی کنٹرول میں لانے کے لئے وہاں کی حکمران اشرافیہ کو پوری طرح سے ساتھ ملا لیا گیا ہے۔ تقریباً تمام مسلم حکمران اپنے اپنے ممالک میں اقتدار بچانے کے لئے واشنگٹن کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ شاہی خاندان ہوں یا سول حکمران، ان ممالک کی مسلح افواج کی قیادت کو پینٹاگون کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اول تو کوئی کسی معاملے پر مخالفانہ لب کشائی کر ہی نہیں سکتا۔ اگر کرے تو جنرل السیسی اور جنرل مشرف ایسے مہرے براہ راست خدمت کے لئے منظرعام پر آ جاتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی اسی شیطانی حکمت عملی نے اسلامی دنیا میں شدت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے پوڈل اپنے حکمرانوں سے بھی اسی لئے ناراض ہے۔ امریکی پالیسیاں مختلف خطوں میں جو خوفناک عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں بالآخر پوری دنیا کو اس کی لپیٹ میں آنا ہو گا خود امریکہ کو بھی۔۔۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی حکومتوں میں انصاف پسندی کی کوئی رمق بھی پائی جاتی تو گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی حکومت اور جریدے کی مذمت کی جاتی۔ پیرس میں ملعون کارٹونسٹوں سمیت رسالے کے ایڈیٹر اور دیگر عہدیداروں کے قتل پر تو بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوئے، تعزیتی اور مذمتی بیانات بھی جاری ہوئے، لیکن جب اس جریدے نے اپنی شرمناک حرکت کا پہلے سے بھی بڑھ کر اعادہ کرنا چاہا تو اقوام متحدہ حرکت میں آئی نہ یورپی یونین۔ اور تو اور خود کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہہ دیا ہے کہ کسی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ آپ کسی کو اشتعال نہیں دلا سکتے۔ دوسرے کے مذاہب کی بے عزتی نہیں کر سکتے، اس کا تمسخر نہیں اڑا سکتے۔ ایسی کسی حرکت پر جوابی ردعمل تو آئے گا۔ پوپ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر میرا اچھا دوست میری ماں کو برابھلا کہتا ہے تو اسے جوابی مکے کے لئے تیار رہنا چاہیے، یہ معمول کی بات ہے۔،،
اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مذہب پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو امن کسی طور ممکن نہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں موجود مسلمانوں کے لئے حرمت رسولؐ کا دفاع اولین ترجیح ہے۔ کرہ ارض پر موجود ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا تیسری صلیبی جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ردعمل کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہو گا شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
سازشی تھیوریاں اپنی جگہ، لیکن خود پیرس میں پیش آنے والے واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔ دنیا کے سب سے خوبصورت شہر میں جہاں ایسا امن تھا کہ کوئی کسی کو گھور کر بھی نہ دیکھ سکتا تھا، وہیں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے جریدے کے دفتر پر پیشگی دھمکی کے بعد بھرپور حملہ ہوا۔ مخبری بھی مکمل تھی۔ حملہ آور جانتے تھے کہ جریدے کی میٹنگ میں گستاخانہ خاکے بنانے والے کارٹونسٹ اور ان کی سرپرستی کرنے والے ایڈیٹر حضرات بھی موجود ہیں۔ سب کو ایک ہی ہلے میں واصل جہنم کر دیا گیا۔ فرانس تو کیا پورا یورپ بھونچکا رہ گیا۔ 80ہزار سے زائد فوجی اور پولیس اہلکار حفاظتی انتظامات پر متعین کرنا پڑے۔ پورا فرانس کئی روز تک تماشا بنا رہا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ خوفزدہ شہریوں کا مورال بلند کرنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک کے سربراہوں کو مدعو کر کے لاکھوں افراد کے مارچ کا انعقاد کرنا پڑا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فرانسیسی حکومت اس گھٹیا رسالے کو پہلے ہی ایسا شیطانی کام کرنے سے روک دیتی۔ آزادئ اظہار کے نام پر مذاہب پر رکیک حملے کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو ردعمل روکنا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔ جی ہاں !خودمسلم ممالک کی بزدل اور بے حس حکومتیں بھی اپنے ہی عوام کے سامنے بے بس ہو جائیں گی۔ یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک کے پٹھو حکمران اور اشرافیہ ہر قیمت پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ عوام بے بسی کی حالت میں یہ شرمناک تماشا دیکھنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ اور مغرب کو، لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ جہاں مذہب کا معاملہ آ جائے وہاں مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی دینے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ ناموس رسالتؐ کے لئے جان دینا باعث اعزاز ہے۔ سچا مسلمان تو اپنے دین کے لئے جان دینے کے عمل کو بھی بہت کم قربانی تصور کرتا ہے۔ جان دینے کے بعد بھی یہی محسوس کیا جاتا ہے کہ:
’’جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،،
مسلم دنیا میں تباہی، بربادی کے ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں۔ دین اسلام پر اس نوع کے رکیک حملے ہوتے رہے تو مسلم ممالک کے پٹھو حکمران کسی طور پر اپنا اقتدار نہیں بچا سکیں گے۔ اسلامی دنیا میں پیدا ہونے والی دھماکہ خیز صورتحال کے اثرات جلد یا بدیر بدی کے اصل محور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہیں گے۔ دنیا کو کسی بڑے سانحے سے ٹالنے کے لئے ہوش کے ناخن بالآخر امریکہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں کو ہی لینا ہوں گے ورنہ سچا مسلمان تو اپنے ایمان پر کٹ مرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔