اصلی اپوزیشن کون ہے؟
وزیراعظم نواز شریف نے پاک چین اکنامک کاریڈور، جسے عرف عام میں سی پیک کہا جاتا ہے، کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر اس منصوبے کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے سانپ کا سر کچلنے کی کوشش کی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ اس کوشش میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں اور یہ دیکھنے کے لئے ہمیں آئندہ کچھ دِنوں ، ہفتوں اور مہینوں کا انتظار کرنا پڑے گا!
دیکھا جائے تو اس منصوبے کے آغاز سے ہی وزیراعلیٰ خیرپختونخوا پرویز خٹک بار بار چٹک رہے ہیں ، حتیٰ کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی تسلسل کے ساتھ وضاحت بھی کارگر نہ ہو سکی تھی ، اب وزیراعظم نواز شریف نے خود سمجھایا ہے،اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید دعویٰ کر چکے ہیں کہ جب وہ پرویز خٹک کو سمجھائیں گے تو انہیں سمجھ آ جائے گی، مگر حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں وفاقی حکومت کو ایک فل ٹائم وزیر تعینات کرنا پڑے گا،جس کا کام صرف اور صرف خٹک صاحب کو سمجھانا ہو گا۔ گزشتہ روز کراچی سے ایک ایف ایم ریڈیو سے پروگرام میں ایک مزاحیہ کردار پٹھان حکیم بنا ہوا تھا جو اپنی حکیمی روداد بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ لیڈی ڈاکٹر بنے جس پر اس کے اُستاد نے اسے خوب پیٹا ، انتقاماً وہ حکیم بن گیا!
تاہم پرویز خٹک صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کو بھی ساتھ ملا لیا تھا، ان کی پھرتیاں دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے اگر وفاقی حکومت نے سی پیک مکمل کر لیا تو پرویز خٹک اور ان کی پی ٹی آئی کو میدان سیاست سے ری پیک کرنا پڑ جائے گا اور اِسی خطرے کے پیش نظر پرویز خٹک نے چٹک پٹک شروع کر دی ہے!یوں تو اگر پاکستان بھر کی اپوزیشن کو جمع کر لیا جائے تو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وزیراعظم نواز شریف کی اصل اپوزیشن جماعت کون سی ہے، کیونکہ جس کو دیکھو وہ وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنی سیاسی دکان چمکائے ہوئے ہے، البتہ میاں صاحب کو اس لئے فکر کی چنداں ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ لیڈرشپ کا تذکرہ ہوتا ہی ہے۔
وزیراعظم مودی کے دورۂ لاہور سے امید کا جو دِیا جلا ہے ، اسے جلائے رکھنا دونوں حکومتوں ہی نہیں، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے ، بات چیت ہو گی تو ہی مسئلہ کشمیر حل ہوگا اور تبھی بلوچستان میں امن ہو گا، یہ درست ہے کہ ہندو بنیا ہوشیار ہوتا ہے، مگر یہ کب غلط ہے کہ پاکستان ایسی کسی بھی ہوشیاری سے نپٹنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ لوگ فوج سے پہلے ہوتے ہیں ، فوج لوگوں کے لئے ہوتی ہے لوگ فوج کے لئے نہیں ہوتے اور اگر لوگ امن چاہتے ہیں تو فوج کیسے جنگ کر سکتی ہے!
اسی طرح عوا م کی اکثریت یہ بھی سوچ رہی ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟۔۔۔ان کے ناقد کہتے ہیں کہ نادانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، وہ حال کو مستقبل بنا کر جیتے ہیں اور مستقبل کو ماضی بنا کر، تبھی تو میاں صاحب سڑکیں بنائے جا رہے ہیں اور عمران سڑکوں پر تنقید کئے جا رہے ہیں ، بھئی اگر سڑکوں نے اس مُلک کو کچھ نہیں دینا تو پھر اس پر اتنی تنقید کیوں؟ اگر لوگوں کو سڑکیں نہیں چاہئیں تو اپوزیشن کو ہلکان ہونے کی کیا ضرورت ہے،اسے وہ کچھ کرتے رہنا چاہئے جو اس کے نزدیک عوام میں ان کی پذیرائی کا سبب ہے،اسی طرح یہ جو تکرار ہے کہ حکومت کا تعلیم اور صحت پر کمپرومائز ہے ، اپوزیشن کا یہ ڈرامہ بھی Over-emphasize ہے، کیونکہ خدانخواستہ اگر عمران دوبارہ کسی بلندی سے گرے تو انہیں شوکت خانم ہی لے جایا جائے گا ، وہ میو ہسپتال یا گنگارام ہسپتال نہیں لائے جائیں گے، اِس لئے انہیں چنداں فکر کی ضرورت نہیں کہ وہاں مشینیں چل رہی ہیں یا بند ہیں ،و ہ اپنے شوکت خانم کے لئے چندہ جمع کریں،میو ہسپتال اور گنگارام ان کے تھوڑی ہیں ، وہ توحکومت کے ہیں!
کچھ انگریزی کالم نگاروں نے لکھا ہے کہ جب سے حکومت نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی گڈگورننس سے متعلق پریس ریلیز کا جواب دیا ہے، تب سے وزیراعظم نواز شریف دوبارہ سے مضبوط ہو گئے ہیں،حالانکہ اس سے قبل بعض پی ٹی آئی کے حامی بیان کرتے تھے کہ عمران خان کے دھرنوں سے فوج نے وزیراعظم نواز شریف کو مطیع کرنا تھا اور اس کا یہ مقصد پورا ہو گیا ہے،انہی دِنوں اخبار ہذا کے مدیر عمر شامی نے وزیراعظم سے ایک انٹرویو میں اس تاثر کے حوالے سے سوال پوچھا تھا جس پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے ، پھر لوگوں نے دیکھا کہ اگر عمران خان کے دھرنوں کو فوج کی آشیر باد قرار دینے پر وزیراعظم نے وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ سے استعفیٰ لے لیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر کی گڈ گورننس سے متعلق پریس ریلیز کے جواب حکومتی پریس ریلیز پر جی ایچ کیو نے مثالی در گزر کا مظاہرہ کیا اور لگائی بجھائی کرنے والے اینکروں کی باتوں پر کان نہ دھرا!
چنانچہ اب مسلم لیگ(ن) کے سربراہ جناب نون اگر اپنے مستقبل کو عقل و خرد سے متصل کئے عوامی فلاح کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں تو اس پر غیر ضروری اٹھک بیٹھک نہیں کرنی چاہئے، اب کچھ یار لوگوں نے چین سے توقع لگالی ہے کہ پرویز خٹک کے اعتراضات کی بنیاد پر وہ اس منصوبے کو التوا میں ڈال دے گا، ہم ان کی توقع توڑنا نہیں چاہتے، لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہیں گے کہ چین اس معاملے پر چیں کرے گا نہ چوں، کیونکہ اس کے لئے پاکستان ایسے ہی ہے جیسے امریکہ کے لئے اسرائیل!