طلباء کی یونین سازی سے پابندی ختم کرنے کا سوال؟
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر اور سندھ کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں طلباء یونینوں پر عائد پابندیاں اُٹھا لیں کہ یہ تحفہ دور آمریت کا ہے اور اس سے جمہوری تربیت میں رکاوٹ آتی ہے، طلباء یونینوں پر پابندی کا فیصلہ ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں ہوا،جس کی وجہ تعلیمی اداروں میں امن کا قیام تھا کہ طلباء یونینوں کی وجہ سے تصادم ہوتے تھے۔ ضیاء الحق کے بعد تین بار پیپلزپارٹی حکومت میں آ چکی، اب بھی آٹھ سال سے مسلسل سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ بلاول کو یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ آخر آمریت کی یاد گار کو اب تک اُن کی پارٹی نے کیوں سینے سے لگائے رکھا؟ کیا خاتمے کے لئے بلاول کی ہدایات کا انتظار کیا جا رہا تھا؟ تعلیمی اداروں میں تو یونین سازی پر پابندی ہے، لیکن ہر سیاسی جماعت کا اپنا طلبہ ونگ ہے اور یہ تعلیمی اداروں میں بھی موجود ہیں، یوں معنوی اعتبار سے تو تعلیمی اداروں میں یونین بازی ہوتی ہی ہے، بلکہ اس وجہ سے بھی تصادم ہوتے رہتے ہیں بہتر عمل تو یہ ہے کہ ایک ضابطے کے تحت تعلیمی اداروں میں عائد یہ پابندی ختم کر دی جائے اور یونین سازی کے لئے باقاعدہ ضابطہ اخلاق اور قواعد مرتب کر کے اجازت دی جائے۔ صحت مند سرگرمیوں سے تعلیمی اداروں کا ماحول ہی بہتر نہیں ہو گا، بلکہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اضافہ طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی جلا بخشے گا، ذمہ دار قیادت کے بھی فرائض ہیں کہ پابندی نہ ہو تو اس کے نتائج مثبت ہوں اور تمام تر سرگرمیاں ا تنی بہتر اور پُرامن انداز میں ہوں کہ طلباء کی تربیت کا ذریعہ بنیں، مخدوم جاوید ہاشمی، پرویز رشید، جہانگیر بدر اور خواجہ سعد رفیق جیسے حضرات طلباء سیاست ہی کے تربیت یافتہ ہیں۔جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کا تعلق ہے تو وہ سندھ اور آزاد کشمیر حکومتوں ہی سے کہہ سکتے تھے کہ وہاں پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے تاہم بہتر ہو کہ یہ سلسلہ پورے ملک میں بحال کیا جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فیصلہ کر لینا چاہئے اور اس پابندی کو ختم کرنے اور بحالی کے بعد مثبت سرگرمیوں کے لئے قانون سازی کر لینا چاہئے، برسر اقتدار حضرات کو گھبرانا نہیں چاہئے کہ مناسب نگرانی اور تربیت مثبت نتائج دے گی۔