اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان۔۔۔ (4)

نظریاتی انحراف کیوں ہوا؟
اس نظریاتی انحراف کے پیچھے اسباب و وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کریں تو نظر آئے گا کہ اس انحراف کی کچھ داخلی وجوہات ہیں اور کچھ خارجی اسباب ہیں۔
-1 نظریاتی انحراف کی داخلی وجوہات:اجتماعی اور قومی سطح کے جرائم میں کسی ایک فرد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، ایسے جرائم میں ہر طبقہ شریک جرم سمجھا جاتا ہے ،البتہ جرم کے ارتکاب میں عوام اور خواص میں فرق کیا جائے گا۔ عوام کم ذمہ دار اور خواص زیادہ ذمہ دار ہوں گے۔ علماء زیادہ ذمہ دار اور بے علم عوام کالانعام کم ذمہ دار۔ علیٰ ہذا القیاس حکمران طبقہ اور عوام، تعلیم یافتہ، دانشور طبقہ اور بے علم، کارخانہ دار ،مزدور اور مردوں کے مقابلے میں خواتین اور شہریوں کے مقابلے میں دیہاتی کم ذمہ دار ہوں گے۔پاکستان بننے کے بعد ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنے کا کام نہیں ہوسکا۔ وقتی طور پر یہ کام حکومت، علماء، قائدین، سیاسی جماعتوں، پیروں اور مذہبی و دینی پیشواؤں کا تھا جو بوجوہ پورا نہیں ہوسکا۔دوسرے درجے میں اس نظریاتی کام کی کمی کو نئی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تعلیمی میدان میں فکرِ اقبال پر مبنی ملکی تعلیمی نظام نے پورا کرنا تھا۔ ہمارے مقتدر طبقات کے ذاتی مفادات آڑے آئے اور کڑوا سچ یہی ہے کہ ذمہ دار حضرات نے یہ کام نہیں کیا، لہٰذا ہماری نئی نسلیں اس نظریاتی بیداری کی روشنی سے منور نہ ہوسکیں اور آئندہ ہر آنے والا دن اور ہر سال نئے کامیاب ہونے والے طبقہ کی کھیپ درجہ بدرجہ نظریاتی اجنبیت کا شکار ہوتی گئی اور نظریۂ پاکستان یا فکرِ اقبال نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا چلا گیا۔ حیرت ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اور چندسال بعد تک علامہ اقبال کا کلام ہمارے سکولوں اور تعلیمی نصاب میں رچا بسا ہوا تھا مگر آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ علامہ اقبال کا فکر اور نام تک تعلیمی سلیبس میں سے نکال دیئے گئے ہیں۔لہٰذا اب 67 سال بعد پوری قوم نظریۂ پاکستان کا نام تو کبھی کبھی اخبارات میں پڑھتی ہے مگر اس کی تفصیلات اور حقیقت سے نابلد ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بہت دیر سے قائم ہوا مگر اس کا کام تعلیمی نظام سے علیحدہ ہونے کے سبب بے اثر ہے۔الغرض اس نظریاتی انحراف پر پوری قوم مجرم ہے اور ’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘ کے مصداق انحراف ہوا ہے تو یقیناًاس کے اسباب بھی ہوں گے۔ اگر ہم اس وقت ایک دوسرے کو مجرم اور ذمہ دار ٹھہراتے رہے تو بہت سارا مزید وقت اسی کام میں گزر جائے گا اور مثبت کام میں مزید دیر ہو جائے گی لہٰذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ نظریاتی انحراف ہوا ہے باہم مل کر اب اس انحراف کے اثرات کو ختم کرنے کے اقدامات پر غور کرنا چاہئے اور اس کے لیے سب کو مل بیٹھ کر کام کرنا چاہئے۔
-2 نظریاتی انحراف کے خارجی اسباب:پاکستان جیسی واحد نظریاتی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد نظریاتی انحراف کے اسباب میں داخلی کے ساتھ کچھ خارجی اسباب بھی ہیں:
* پاکستان کے قیام کے وقت ہی 1940ء تا 1947ء نہ برطانیہ کی حکومت اور عوام یہ چاہتے تھے کہ پاکستان بنے اور نہ ہی کانگریس چاہتی تھی کہ بھارت میں مسلم ریاست کا علیحدہ وجود ہو۔ پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی عالمی طاقت کی حیثیت صہیونیت نے ’امریکہ‘ کو دلا دی۔ جس کی وجہ سے روزِ اول سے امریکہ بھی درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ قائداعظم کی حیات تک (ستمبر 1948ء) جنگ کشمیر کی صورت میں یہ دشمنی بھارت اور برطانیہ تک محدود تھی۔ پھر خان لیاقت علی خان کو امریکہ بلوایا گیا۔ وہاں اسرائیل کی ریات کو تسلیم نہ کرنے کی بات کرنے پر امریکہ نے پاکستان کو دوست بناکر اور گلے لگا کر ہلاک کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کردیا ،وہ دن اور آج کا دن ہمارا ملک امریکی دوستی کے زہریلے اثرات کی وجہ سے تڑپ رہا ہے۔ ایوب خان کا مارشل لاء، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، یحییٰ خان کا مارشل لاء، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اور جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء امریکی قیادت کے آسمان کی وحی تھی جو روبعمل آئی۔ امریکہ جمہوریت کا علمبردار ہے مگر جمہوریت کے ساتھ ساتھ مارشل لاؤں اور بادشاہتوں کو بھی پالتا ہے اور ان سے بھی کام لیتا ہے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان ناجائز ذرائع کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
ان ادوار میں دیگر منحوس پالیسیوں کے ساتھ تعلیمی اصلاحات کے نام سے امداد ،خصوصی فنڈ، وظائف، نمایاں طلبہ کے لئے امریکی دورے یہ سب باتیں صہیونی Illuminate کے زہریلے عالمی منصوبے کے ایک اہم حصے کے طور پر پاکستان میں نصاب تعلیم کی یکسر تبدیلی کا باعث بنیں اور نوبت بایں جارسید کہ اب پاکستان کے سکول کالجز کا نصاب نظریۂ پاکستان کے مخالف مواد سے بھرا ہوا ہے۔نظریہ پاکستان کے تسلسل کا ذمہ دار ایک نظریاتی نظامِ تعلیم کو بننا تھا اور اس ریاستی ستون کا یہ حال ہے تو اس کے اثرات عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور فوج پر بھی اسی طرح پڑے ہیں جیسے پڑنے چاہئیں تھے۔
مغرب ہمارا دشمن ہے؟ وہ نہیں کہہ سکتا کہ ’نظریہ‘ بھی ریاست کا ستون ہے اور اہم ستون ہے وہ تو اس کو گرانے کے درپے ہے تاکہ پاکستان بھی ایک عام ریاست بن کر مغرب کا مکمل غلام بن جائے۔جبکہ ہماری ملکی ضرورت کے تقاضے اور ہیں۔ اگر نظریہ پاکستان زندہ ہوگا تو فکرِ اقبال زندہ ہوگا پھر تعلیم نظریاتی ہوگی۔ اگر تعلیم نظریاتی ہوگی تو ہماری فوج، ہماری عدلیہ، ہماری مقننہ اور ہماری انتظامیہ میں ہر نیا آنے والا اہلکار اس نظریہ کی اہمیت کو سمجھے گا اور اسی سمت میں چلے گا، یوں ملک بحیثیت مجموعی اپنے مقصدِ وجود یا نظامِ عدل اجتماعی یا اسلام کا اجتماعی نطام یا قرآن مجید کا نظام یا نظامِ مصطفی ﷺ کی طرف بڑھتا رہے گا ،وگرنہ وہ حال ہوگا جو اب ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں اعلیٰ سطح پر ہر New Entry مغربی افکار و نظریات کی طرف لے کر جانے والی ہے، اس لئے کہ جو مغرب سے سیکولر تعلیم لے کر آتا ہے اور اس کا پرستار اور پجاری ہوتا ہے وہ آتے ہی اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہو جاتا ہے اور سیکولرازم کو مضبوط کرنے کی پالیسیاں بناتا ہے۔ نام کا چاہے مسلمان ہی ہو۔(جاری ہے)
نظریاتی تعلیم سے نظریہ قوم کے ہر طبقے، میں سرایت کرتا ہے۔ کسی ملک کے شہریوں اور نظریے کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے سکول لیول پر ’’پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے‘‘ کا سائنسی تجربہ ہے۔ ایک اپریٹس (Apparatus) ہوتا ہے جس میں کئی قسم کی شیشے کی ٹیوبیں لگی ہوتی ہیں۔ ایک سیدھی ہے، ایک ٹیڑھی ہے، ایک بل کھاتی ہوئی اوپر کی طرف گئی ہے، ایک صراحی دار ہے۔ ان ٹیوبوں کا آپس میں ایک افقی بڑی ٹیوب کے ذریعے تعلق ہوتا ہے۔ اس بڑی ٹیوب میں پانی کا والو کھولیں تو پانی اوپر کو اٹھنا شروع ہوتا ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ موٹی، باریک، ٹیڑھی، سپرنگ کی طرح بل دار، ہر ٹیوب میں پانی چڑھتا ہے اور سب میں پانی کی سطح ایک جیسی ہوتی ہے۔ اس تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانی کو اپس میں ملے ہوئے کسی قسم کے برتنوں میں ڈالو تمام برتنوں میں سطح ایک جیسی ہوگی۔
نظریہ۔۔۔ ریاست کے ستونوں میں اسی طرح سرایت کرتا ہے اور ریاستی سطح پر تمام ستون بلکہ عوام و خواص اور زندگی کا ہر طبقہ مجموعی طور پر ایک جیسا متاثر ہوتا ہے (افراد کا معاملہ دوسرا ہے ہر جگہ اچھے/برے لوگ انفرادی سطح پر مل جائیں گے)۔۔۔لہٰذا نظریاتی نظام کے گزشتہ 60 سالہ فقدان کی وجہ سے ہماری انتظامیہ (سرکاری کار وفاقی سطح سے لے کر قاصد اور چوکیدار کی سطح تک، پولیس، محکمہ مال اور دیگر سرکاری ادارے اور کارپوریشن وغیرہ)، ہماری مقننہ (پارلیمنٹ لاجز میں بے حیائی و بے ہودگی کا کیس اخبارات کی زینت بنا اور مک مکا کے ذریعے دب گیا)، ہماری عدلیہ (ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ) کا عام آدمی کو معلوم نہیں، مگر ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں کا جو حال ہے ہڑتالیں، تاریخیں، خرچے، رشوت اور مرضی کے فیصلے ہر اس شخص کا تجربہ جو عدالت سے رجوع کرتا ہے۔ فوجداری یعنی قتل وغیرہ کا کیس ہو تو اللہ ہی حافظ ہے جائیدادیں بک جاتی ہیں مگر فیصلے نہیں ہوتے) اور فوج کا معاملہ بھی اوپر درج مثال کی رو سے زیادہ مختلف نہیں ہوسکتا۔ جنرل پرویز مشرف کا ذاتی کردار اور جنرل یحییٰ خان کا ذاتی کردار اگر سامنے رہے تو یہ اسی دیگ کے چاول ہیں اور الا ماشاء اللہ مجموعی حالت وہی ہے جو نظریاتی تعلیم اور نظریاتی تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہونی چاہئے۔
آزاد میڈیا کا ریاستی ستون بھی اس وقت مادر پدر آزادی کا قائل ہے اور لبرل ازم اور اباحیت پرستی (ہر شے حلال ہے ہر کام جو دل میں آئے کرو) کا علمبردار ہے۔ ہمارے ٹاک شوز (Talk Shows) ہمارے ڈرامے، ہمارے میڈیا کے عمومی مزاج میں (جو کچھ چند ماہ پہلے جیو کی نشریات پر مذہبی سطح پر ہوا کہ ’کہے صنم بھی ہری ہری‘) اصول اخلاق، مذہب، اللہ، رسول ﷺ، قرآن مجید، خلفائے راشدین، صحابہ کرامؓ اکابرین امت، صلحائے امت، مسلمان بادشاہوں پر مخالفانہ اور سیکولرازم کے نقطہء نظر سے تنقید کے ذریعے سب اصول بالائے طاق رکھ کر صرف ریٹنگ بڑھانے اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کا جذبہ کار فرما ہے۔ باپردہ لباس، دوپٹہ، برقع، نمازوں کے اوقات، نماز، اذان یہ سب باتیں ہمارے میڈیا کے لحاظ سے قبل از تاریخ کے روسن اور یونانی دور کے دیو مالائی قصوں سے بھی گئے گزرے تصورات بن کر رہ گئے ہیں۔ اس لئے کہ رومی و یونانی۔۔۔ بت پرستانہ اور گمراہ کن نظریات کا ذکر کریں گے تو انسان جدید اور ماڈرن لگتا ہے جبکہ خدا اور رسول ﷺ کا ذکر کریں گے تو :
’کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘
والی بات ہے جو ہمارے مسلمان میڈیا کارکنان کو بھی بالعموم پسند نہیں ہے۔اور سب سے آخر میں خود محکمہ تعلیم اور اس کے کارپردازان کے علاوہ ایک عام ٹیچر کا کردار کیا ہے؟ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لہٰذا ایسے اساتذہ کے زیر تربیت بچے بڑے ہوکر جو کچھ بنتے ہیں، سرکاری ادارے عدلیہ، فوج، میڈیا کا عمومی مزاج اس کا گواہ ہے۔ ان میں سے پھر بھی جو بچے قدرے مسلمان رہتے ہیں، وہ شاید کچھ گھروں کا ماحول اور محلے کی مسجد میں قرآن مجید (ناظرہ) اور نماز کی تربیت کا اثر ہے وگرنہ محکمہ تعلیم میں نصاب سے لے کر امتحانی پرچوں اور نتیجے کے اعلان تک اقرباء پروری اور رشوت کا بازار گرم رہتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کے معاملات میں رشوت کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری بنیادی نظریہ کے تحت نظریاتی تعلیم کے شدید فقدان کا نتیجہ ہے۔ اگر تعلیم کے شعبے کا یہ حال ہے تو دیگر ریاستی ادارے ماشاء اللہ۔یہ حال سرکاری سکولوں کا ہے، پرائیویٹ ادارے اور بالخصوص امراء کیلئے بنائے گئے پرائیویٹ سکول اور کالج وغیرہ کااخلاق اور نظریاتی گراف کب کا زیرو سے نیچے جاچکا ہے۔ یہی حال ہمارے ہاں تربیتی اداروں اور ٹریننگ اکادمیوں کا ہے وہاں بھی اخلاق، کردار اور نظریہ، فکر اقبال، اسلام، قرآن، جہاد، یہ سب چیزیں قصۂ ماضی ہیں، ان کا نام شاید ہو۔ ایک زندہ کردار کے طور پر یہ چیزیں وہاں ہوتیں تو وہاں سے تربیت یافتہ افراد میں بھی ہوتیں جو کہ نہیں ہے۔ دھواں نہیں ہے تو یقین ہے کہ آگ کا وجود نہیں ہے۔ (جاری ہے)