پاناما لیکس سماعت، تفصیلی رپورٹنگ سے بہت سے امور صاف ہوئے
تجزیہ:چودھری خادم حسین
پاناما لیکس کیس کی سماعت کے حوالے سے حضرات کے انداز تو تبدیل نہیں ہوئے، اپنی اپنی پسند کی تشریح ہو رہی ہے تاہم اچھی بات یہ ہے کہ رپورٹر دوستوں نے اب کارروائی کی خبر تفصیل سے دینا شروع کر دی ہے۔ یوں بھی جب سے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل شروع کئے لارجر بینچ کے فاضل جج صاحبان اور سننے پڑھنے والوں کی بھی توجہ ہو گئی ہے۔ فاضل وکیل نے بڑی محنت سے کیس تیار کیا قانونی اور آئینی دلائل اور حوالوں سے دفاع کر رہے ہیں۔ فاضل جج حضرات بھی دلچسپی سے وضاحت کے لئے سوال کرتے اور تبصرہ بھی کر رہے ہیں بہر حال ہم اس اصول پر قائم ہیں کہ زیر سماعت مقدمہ کے حوالے سے تبصرہ نہیں کرنا چاہئے اس لئے قارئین کے لئے بھی بہتر ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ ہی پڑھیں تو ان کو اندازہ ہو گا اور پتہ چل جائے گا کہ اسمبلی اور وزیراعظم کو حاصل استثنا کے حوالے سے کیا بات ہوئی، وکیل نے کیا کہا اور فاضل عدالت کا استفسار کیا تھا۔ یہ بہت پرمغزگفتگو ہے جو شائع ہوئی اور پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں کہ استثنا مانگا گیا یا اس کا آئینی ذکر ہوا۔
اسی حوالے سے غور فرمائیں تو محسوس ہو گا کہ محترم عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے شاید درست ہی کہا تھا ’’وکیل بھی کبھی مقدمہ ہارتا ہے۔ ہمیشہ موکل ہارتا ہے‘‘ اب یہ وکیل اور موکل کے رشتے کی بات ہے۔ عدالتی کارروائی میں عموماً وکالت کرنے والے وکیل کا موقف موکل کا موقف ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کو اس سے اتفاق نہیں انہوں نے الیکشن کمیشن کے روبرو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے غیر مشروط معافی نامے کو وکیل کا موقف قرار دے دیا اور کہا کہ عمران خان نے تو معافی نہیں مانگی۔ الیکشن کمیشن بہت برہم تھا۔ اس کی طرف سے ’’متعصب‘‘ کہنے پر وضاحت طلب کی گئی تھی اور چیف الیکشن کمشنر حاصل اختیارات کے تحت کارروائی کرنا چاہتے ہیں کہ وکیل نے غیر مشروط معذرت نامہ داخل کرا دیا، یہ بات نعیم الحق کو بری لگی اور انہوں نے اپنے لیڈر کا دفاع کیا۔ حالانکہ عدالتی تاریخ کی یہ بھی روائت ہے کہ کسی سے دانستہ یا نادانستہ کوئی سہو ہو جائے تو عدالت سے معذرت طلب کر لی جاتی ہے اور عام طور پر معاملہ یہیں پر ختم ہو جاتا ہے تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ نعیم الحق ایسا نہیں چاہتے اگر وکیل اور موکل کے درمیان ایک ترجمان کی وجہ سے یہی تنازعہ پیدا ہو گیا تو پھر وکیل موصوف کی کپتان کو بچانے کی کوشش کو زبردست دھچکا لگے گا اور شاید الیکشن کمشن کے ساتھ تنازعہ اور بڑھ جائے۔ وکیل نے تو الیکشن کمیشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیل یا درخواست بھی واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب اگر کپتان کی مرضی شامل نہیں تو وکیل کی طرف سے وکالت چہ معنی؟ اب یا تو خود کپتان کو وکیل بدل دینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں پیشہ وکالت کا تقاضا تو معذرت ہے؟
اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہرنعیم الحق صاحب کا فواد چودھری سے پھڈا ہوا وہ بھی وکیل ہیں۔ اب ان کابیان وکیل پر عدم اعتماد ہے۔ اگر کپتان کی مرضی شامل ہے تو پھر یقیناً وکیل تبدیل ہوگا ، بہرحال یہ ان کی جماعت کا اپنا فیصلہ اور معاملہ ہے یوں بھی سیاسی جماعتوں میں ایسے معاملات چلتے رہتے ہیں اور ہر دم سب اچھا نہیں ہوتا، تحریک انصاف ہی نہیں دوسری جماعتوں بشمول مسلم لیگ(ن) میں بھی اضطراب ہے لیکن یہ سب لیڈرشپ کے سامنے دب جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں اراکین اسمبلی ناراض ہوئے، کپتان کی حمائت، وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو رہی ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، بدستور قائم و دائم وزیراعلیٰ ہیں۔
پارٹی میں اضطراب اور تنقید کا جو سلسلہ پیپلزپارٹی میں ہے یہ کسی اور جماعت میں نہیں ہو سکتا، یہاں جیالوں کو زبان خود بانی جماعت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے دی تھی اور یہ سلسلہ تاحال بحال ہے کل (جمعرات) لاہور سے فیصل آباد تک ریلی کے انتظامات کے لئے مرکزی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے پیر کو پیپلزپارٹی پنجاب کے دفتر میں میٹنگ بلائی۔ اس میں لاہور کے سابق عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈروں کو بھی مدعو کیا گیا۔ اجلاس شروع ہوا تو روائتی جیالا پن جاگ گیا۔ کارکنوں نے برملا کہا کہ جن رہنماؤں نے دور اقتدار میں فوائد اٹھائے اب وہ جلوس کے لئے گاڑیاں بھی مہیا کریں۔ یہ بات گرما گرمی ہی کا باعث بن گئی، چودھری منظور جو کامریڈ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور شاید اب بھی کرتے ہوں، برہم ہو گئے اور لاہور والوں سے کہا وہ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں نہیں شامل ہونا چاہتے تو نہ ہوں، ہم جلوس کا روٹ تبدیل کردیتے ہیں اور بلاول بھٹو کو لاہور لائے بغیر شیخوپورہ سے جلوس شروع کر لیں گے۔ خبر کے مطابق اس پر پھر ہنگامہ ہو گیا اور لاہور کی سابق صدر ثمینہ گھرکی نے افسوس کا اظہار کیا کہ چودھری منظور نے ایسا کہا۔یہ تنازعہ بہرحال کارکنوں ہی کی وجہ سے آگے نہ بڑھا تاہم چودھری منظور کے حوالے سے باتیں ہونے لگی ہیں بلاول بھٹو جمعرات کو لاہور سے فیصل آباد تک ریلی کی قیادت کریں گے یہ پارٹی خصوصاً قمر زمان کائرہ کا پہلا امتحان ہوگا وہ کئی روز سے مختلف شہروں کے دورے کرتے چلے آ رہے ہیں بہرحال لاہور سے گاڑیوں کے قافلے کا اہتمام کر لیا گیا ہے، بلاول کا بھی پنجاب میں یہ پہلا جلوس ہے ان کے مطابق حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہے اس کے بعد وہ امریکہ جائیں گے اور واپسی میں جو 25جنوری کے بعد ہوگی ،جنوبی پنجاب میں جلسے کریں گے۔