کوالٹی والی کشمیری قیادت چاہئے

کوالٹی والی کشمیری قیادت چاہئے
کوالٹی والی کشمیری قیادت چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سی۔این۔این ، الجزیرہ ، آر۔ ٹی زیادہ پاورفل ٹی۔وی چینلز ہیں۔ان کے کام کا طریقہ عام نہیں خاص ہے۔ان سے بات کرنے والوں کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔جب کشمیر کاز کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو دیکھنا ہوگا ان چینلز سے بات کون کرسکتا ہے۔ ہمیں ایک ایساسپوکس مین چاہیے جسے سی۔این ۔این سے ڈائریکٹ کال آئے’’ ہیلو میں سی۔این۔این سے بات کررہی ہوں۔ میں نے ایک کشمیری سپوکس مین یا رہنما سے بات کرنی ہے جو پبلک کا نمائیندہ ہو۔ یا پبلک یا آفیشل چئیر پر بیٹھا ہو‘‘
سی۔این۔این جو سوالات پوچھے گا۔ انکی تیاری اندازاً تو ہوسکتی ہے لیکن ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ سی۔این۔این پہلے آپ کو سوالات بھیجے اور آپ ان سوالات پر اچھی طرح سوچ لیں اور تیاری کرلیں۔ سی۔این۔این کو کیا پڑی ہے کہ ایسا کرے گا؟ لوکل ٹی۔وی چینلز پر یہ سب چل جاتا ہے۔ سوالات پہلے مل جاتے ہوں گے۔ جوابات ازبر کیے جاسکتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ تیاری کرنی چاہیے۔لیکن یہ سی۔این۔این براہ راست یعنی لائیو انٹرویو لے گا اور بغیر کانٹ چھانٹ نشر کردے گا۔ ایک ایک جملہ اور لفظ اہم ہے۔ سوال سے سوال نکلے گا۔ فوراً جواب دینا ہے۔صیح جواب دینا ہے۔ ایسا جواب دینا ہے ۔ کہ سی۔این۔این کو احساس ہوکہ انہوں نے اب تک کشمیری لیڈر شپ کی رائے نہ لے کر غفلت برتی ہے۔ وہ الگ بات ہے بھارتی لابی اس کا نوٹس لے گی۔بھارتی اس کا توڑ نکالیں گے۔ وہ سی۔این۔این کو کہیں گے ’’عمر عبداللہ سے بات کریں۔ محبوبہ مفتی سے بات کریں‘‘
فرض کرتے ہیں سید احمد گیلانی صاحب ، میر واعظ صاحب ، یاسین ملک صاحب خدا نہ کرے علیل ہوں اور براہ راست سی۔این۔این کی کال نہیں لے سکتے۔ باقی بچے اس پار کے رہنما اور سپوکس مینز۔ جو ماشاء اللہ پچھلے ساٹھ ستر سال سے نسل در نسل سیاست کے میدان میں ہیں اور بضد ہیں کہ عوام کی نمائیندگی کریں گے ورنہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے ۔ سی۔این۔این کی ایسی کوئی بھی کال باؤنس بیک نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ سی۔این۔این نے نہ تو پانی کی ٹونٹی کی بات کرنی ہے نہ کچی سڑک کی بات کرنی ہے۔ نہ پرائمری سکول کی بات کرنی ہے ۔ بہتر نہیں ہے کہ سی۔این۔این کی کال اٹینڈ ہی نہ کی جائے۔ ٹالنا کونسا مشکل ہے۔ فون ہی نہ اٹھائیں۔ گھنٹیاں بجتی رہیں گی۔ صاحب سیٹ پر ہیں ہی نہیں۔ آج دفتر اآے ہی نہیں۔کشمیر کی تیسری اور چوتھی نسل بھی سیاست میں ہے ۔ لیکن حیرت ہے یہ کشمیر پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ انگریزی بول لیتے ہیں۔ ویسی انگریزی بول لینا کونسی بڑی بات ہے۔ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ سی۔این۔این والے پتہ نہیں کیا سوال پوچھ لیں۔ ہم جواب ہی نہ دے سکیں یا غلط جواب منہ سے نکل گیا تو ساری خاندانی سیاست مٹی میں مل جائے گی۔ سی۔این۔این والے اس بات پرزیادہ قائل نہیں ہوں گے ،اگر ہم صرف یہ کہیں کہ ہم نے پہلے بندوق چلائی تھی اور کشمیر پر ہماری چوتھی نسل سیاست کے لیے کمر بستہ ہے۔ وہ اس طرح کے سایست دانوں سے انٹرویو کریں گے ہی نہیں۔
وکی۔پیڈیا امریکن آئن لائن انسائکلوپیڈیا ہے۔ کسی بات کے بارے میں جاننا ہو تو گوگل سرچ کریں۔ اکثر وکی پیڈیا ٹاپ پر نظر آتا ہے۔ ہم نے سوچا ہماری تنظیم کو بھی وکی پیڈیا پر نظر آنا چاہیے۔ بہت زور لگایا ،مانے ہی نہیں۔ اپنے آئی۔ٹی ایڈمن سے پوچھا ’’ بھائی یہ کیا مسئلہ ہے؟‘‘
بولے ’’سنسر بورڈ میں بھارتی بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں آنے دیتے‘‘ خیر گوگل پر کشمیر پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرسرچ کی ۔ پتہ ہے کیا نکلا۔ کشمیر میں پنڈتوں پر ظلم و ستم۔ لمبی چوڑی کہانیاں۔ کافی نیچے ہمارا رونا دھونا آتا ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے بھائی۔ بھارتی بیٹھے ہیں سلی کون ویلی میں۔ گوگل میں۔ وکی پیڈیا میں۔
ہماری آواز کہاں کہاں پہنچ پاتی ہے؟ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے ہماری آواز کو وہاں بھی دبایا جاتا ہے اور ہم خود بھی ایک دوسرے کی آواز دبانے کی انتھک کوشش کرتے ہیں کہ آواز اوپر نہ جانے پائے۔ فلاں کی آواز اوپر چلی گئی تو میری آواز سنائی نہیں دے گی۔دیکھنا ہوگا یہ آواز پہنچانے اور بلند کرنے اور دوسرے کی آواز دبانے کی کاوش ہماری سیاست کا محور تو نہیں؟ آپ جسمانی طور اگر مضبوط ہیں اور سیاست میں بھی ہیں۔ اگر آپکی آواز کی فریکونسی اور گونج آپکے خیال میں باقیوں سے زیادہ سٹرائیکنگ ہے۔ پھر تو مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ شیر کی آواز میں گرج ہوتی ہے۔ طاقت اور دہشت ہوتی ہے۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔ ہمارے کسی لیڈر میں شاید ایسا کرزمہ، طلسم یا فصاحت و بلاغت کی کمی ہے جو بڑے میڈیا چینلز سے براہ راست گفتگو نہیں کرسکتا؟ لیڈر تو ماشااللہ بہت ہیں۔مگر کوالٹی نہیں۔یقیناًاسی وجہ سے سی این این جیسے چینلز سے وہ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔قیادت میں جب حب کشمیر کے ساتھ جرات اور بلاغت آئے گی اور باہمی خلفشار ختم ہوگا،ایسے لیڈر پیدا کئے جائیں گے تو کشمیر کی سنی جائے گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -