کیسے گذریں گے یہ پانچ ماہ؟
نواز شریف کا سوال اپنی جگہ بجا ہے کہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں صرف پانچ ماہ باقی رہ گئے ہیں پھر یہ دھرنے اور احتجاج کیوں جاری ہیں؟ ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پارٹی نے کہا تو وہ اسمبلی توڑ دیں گے۔
کرکٹ میں ایک دو وکٹیں باقی رہ جائیں تو میچ بچانے کے لئے ٹیسٹ کے آخری دن چائے کے وقفے کے بعد کا ڈیڑھ گھنٹہ گذارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال مسلم لیگ (ن) کو بھی درپیش ہے، یہ پانچ ماہ آسانی سے گذرتے نظر نہیں آتے۔
کل لاہور میں اپوزیشن کی جماعتوں نے جو پاور شو کیا، اس سے دباؤ مزید بڑھے گا، بظاہر یہ احتجاج وزیراعلیٰ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو اقتدار سے نکالنے کے لئے کیا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا مقصد موجودہ سیاسی سیٹ اپ کا خاتمہ تھا، تاکہ نواز شریف کو مزید سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر نئے انتخابات کی طرف جایا جائے۔
ایک سوال جواب خاصی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے، وہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے ہے۔
نواز شریف فوری انتخابات میں نہ جا کر اسی طرح غلطی تو نہیں دہرا رہے، جیسے وہ ماضی قریب میں بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے نا دانستگی میں کرتے آئے ہیں اور اب منزل کا نشان ڈھونڈ رہے ہیں۔
سیاست میں ہمیشہ وہی کامیاب رہتا ہے جو نہلے پر دہلا مارنے کی جرات رکھتا ہو۔ میاں صاحب آج یہ سوال دوسروں سے پوچھ رہے ہیں کہ صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں، اپوزیشن حکومت کیوں گرانا چاہتی ہے؟ حالانکہ انہیں یہ سوال خود سے پوچھنا چاہئے تھا کہ جب صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں تو ہم حکومت سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟ ہمیں بلا تاخیر عوام سے نیا مینڈیٹ لینا چاہئے۔
سینٹ کے انتخابات کی کمزور دلیل بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا ہے، اس پر نواز شریف شدید برہم ہیں، مگر انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ جب گرفت کمزور ہوجاتی ہے تو ایسے واقعات ہونے لگتے ہیں، اب کیا وہ بلوچستان سے سینٹ کی نشستیں جیت سکیں گے یا وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرح یہ نشستیں بھی کوئی اور لے اڑے گا۔
مسلم لیگ (ن) سیاسی طور پر اس وقت بالکل تنہا کھڑی ہے، اس کے وہ اتحادی جو سارا عرصہ مفادات لیتے رہے، اب اس کی بات سننے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان حکومت بچانے میں کسی قسم کی مدد کرنے سے صریحاً انکار کیا، اب ایک طرح سے لولے لنگڑے انداز میں حکومت کی مدت پوری کرنے والی بات ہے، اس سے پہلے اگر اپوزیشن کی طرف سے دباؤ اتنا بڑھا کہ شہباز شریف کو استعفا دینا پڑ گیا تو معاملہ بالکل ہی چوپٹ ہوجائے گا۔
اگر آپ نے اپنے آخری پانچ ماہ یہ شکوے کرتے ہی گزارنے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے اور کام نہیں کرنے دیا جارہا تو اس کا سیاسی طور پر کیا فائدہ ہے، اس سے تو یہی لگے گا کہ حکومت بے بسی کی تصویر بن گئی ہے اور اس بے بسی کے ساتھ مدت پوری کرکے جب حکومت سے باہر آئے گی اور نئے انتخابات کے لئے میدان میں اترے گی تو عوام کے سامنے اس بے بسی کی کیا توجیح پیش کرے گی، عوام کو کیسے یقین دلائے گی کہ اگلی بار اقتدار میں آنے کے بعد پھر اس بے بسی کا شکار نہیں ہوگی۔
میرے نزدیک تو میاں نواز شریف کے لئے یہ بہت اچھا موقع ہے کہ وہ نئے انتخابات کا نقارہ بجا دیں، عوام سے فریش مینڈیٹ لینے کے لئے دھواں دھار انتخابی مہم چلائیں، موجودہ صورت حال میں یہ بہترین آپشن ہے۔ پانچ ماہ بعد صورت حال کیا سے کیا ہوسکتی ہے، ممکن ہے نواز شریف اور مریم نواز کو نیب کیسوں میں سزا ہوجائے۔
انہیں جیل جانا پڑے، ان کیسوں کے فیصلے سے پہلے ان کے پاس ایک بڑا جواز موجود ہے کہ انہیں کرپشن کی بجائے اقامے پر نکالا گیا۔ آج کل تو وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان پر ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ تعصب کی بناء پر انہیں وزارتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار دیا گیا، مگر آگے چل کر تو یہ آپشن ختم ہوسکتا ہے، جو میاں صاحب کے لئے ایک بڑا نقصان ہوگا۔
اب اگر دوسری طرف دیکھیں کہ اپوزیشن کیوں یہ چاہتی ہے کہ حکومت کو مدت پوری نہ کرنے دی جائے تو اسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں، اوّل تو یہ کسی بھی حکومت اور سیاسی جماعت کا کریڈیٹ ہوتا ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے، پیپلز پارٹی یہ کریڈیٹ لیتے نہیں تھکتی کہ اس نے زرداری صاحب کی سربراہی میں اپنی آئینی مدت پوری کی، اس آئینی مدت میں کیا کچھ ہوا، اسے تو سب بھول گئے، لیکن یہ سب کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی نے پانچ برس مکمل کئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) تو ویسے اس کی شدید خواہش رکھتی ہے کیونکہ وہ تین بار اقتدار میں آئی، مگر اس کا وزیراعظم ایک مرتبہ بھی مُدّت پوری نہ کر سکا۔ اس کا الزام بھی نواز شریف پر لگتا رہا ہے کہ انہوں نے فوج سے محاذ آرائی جاری رکھی جس کے باعث انہیں وقت سے پہلے اقتدار چھوڑنا پڑا، غالباً یہی وہ نفسیاتی کمزوری ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) ہر قیمت پر پانچ برس مکمل کرنا چاہتی ہے۔
ادھر اپوزیشن اس نکتے کو پاگئی ہے کہ جب تک مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں کمزور نہیں کیا جاتا، اس وقت تک نہ تو وہ مرکز میں کمزور ہوسکتی ہے اور نہ ہی آئندہ انتخابات میں اسے بڑی شکست دی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری جو ہمیشہ اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی جائے کا نعرہ لگاتے رہے ہیں، شہباز شریف کو گھر بھیجنے کے لئے لاہور کے اجتماع میں شریک ہوئے، انہیں یقین ہے کہ شہباز شریف اقتدار سے باہر ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں محل دھڑام سے نیچے آگرے گا۔
اس صورت میں شاید اسمبلیاں بھی ٹوٹ جائیں، لیکن یہ ٹاسک اتنا آسان نہیں کہ ادھر لوگ خواہش کریں اور ادھر شہباز شریف چلتے بنیں۔ شہباز شریف چومکھی لڑائی لڑنے کے عادی ہیں، جس دن لاہور میں اپوزیشن کا گرینڈ جلسہ ہوا، اس دن وہ قصور چلے گئے اور وہاں زینب کیس کے حوالے سے اپنی بھرپور سرگرمی اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
یہ غالباً اس تنقید کو زائل کرنے کی پیشگی کوشش تھی، جو لاہور میں ان پر کی جانی تھی۔ سو شہباز شریف تو پوری طرح پُر عزم ہیں کہ انہوں نے اپنی مدت پوری کرنی ہے۔
وہ اس لئے بھی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے لاہور میں جو میگا پراجیکٹس شروع کررکھے ہیں، وہ اپنی حکومت کے دوران ان کی تکمیل چاہتے ہیں، کیونکہ ان کی کامیابی کا فائدہ انہیں عام انتخابات کے دوران ہوگا۔ جب انہی منصوبوں کی وجہ سے وہ ووٹ مانگیں گے اور اپوزیشن پر ترقی کی دشمن قوتوں کا لیبل چسپاں کردیں گے۔
خواہش تو سبھی کی ہونی چاہئے کہ اسمبلیاں پانچ برس کے لئے منتخب ہوتی ہیں تو وہ اپنی مدت پوری کریں، مگر یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر معاشرے میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی اور حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جاتے ہیں تو پھر یہ بہت کمزور دلیل بن جاتی ہے کہ جمہوریت کے لئے اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے۔
آپ پچھلے چند ہفتوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو حکومت غیر فعال نظر آتی ہے، سارے فیصلے عدلیہ کی طرف سے آ رہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے، ڈالر کا ریٹ چڑھ گیا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، لا قانونیت بڑھ گئی ہے، ادارے مفلوج ہوچکے ہیں، زینب جیسے کیسوں نے ریاست کی گرفت کو قصۂ پارینہ بنا دیا ہے۔ پوری ریاستی مشینری بھی مل کر تادمِ تحریر زینب کے قاتل کو گرفتار نہیں کرسکی۔
اسمبلیوں میں کورم پورے نہیں ہوتے، قانون سازی رکی ہوئی ہے، بولڈ فیصلے لئے نہیں جارہے، سرکاری محکمے من مانی کررہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ سبھی ٹرانزٹ پیریڈ میں اونگھ رہے ہیں۔
یہ اس دور میں ہورہا ہے جب ہمیں بھارت کی طرف سے حملے کی باقاعدہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔ امریکی صدر ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے،دہشت گردی کا عفریت بلوچستان میں پھر سر اٹھا رہا ہے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ میں نئی سازشیں ہورہی ہیں۔
یہ سب باتیں حکومت کی طرف سے سخت رد عمل اور بہتر فیصلوں کا تقاضا کرتی ہیں، مگر اپوزیشن کی توجہ ان پر ہے اور نہ حکومت انہیں اپنی ترجیح بنانا چاہتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی آزادانہ سوچنے پر یقین نہیں رکھتے، وہ ہر معاملے میں نواز شریف کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ نواز شریف کی تمام سوچیں اپنے خلاف ہونے والے فیصلے اور نیب ریفرنسز پر ہیں۔
وہ جب بھی بولتے ہیں، ان کے موقف کی تان انہی نکات پر ٹوٹتی ہے۔ اس قسم کی بے یقینی اور ابہام زدہ صورت حال میں کیا ہم مزید پانچ ماہ گزار پائیں گے؟
ایک ایسی کھینچا تانی میں جس میں ایک طرف حکومت اپوزیشن سے اپنا دامن بچا رہی ہو، دوسری طرف اپوزیشن حکومت کو تختِ اقتدار سے کھینچ کر اتارنا چاہتی ہو اور تیسری طرف ملک و معاشرہ ہوں، جن کو درپیش چیلنج بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
یہ صورت حال اور آنے والے پانچ ماہ ہم سب کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بھی صورت حال کو اس نظر سے دیکھتی ہو۔ ان سب نے تو اپنے اپنے مفاد کی عینک لگا رکھی ہے جس میں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔