ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا!

ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا!
 ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو 17جنوری 2018ء کی تاریخ ہے اور دن کے دو بجے ہیں۔ میں لاہور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اپوزیشن کا مال روڈ پر نکلنے والا یہ اجتماعی جلوس کیا رنگ لائے گا۔

سرخ آندھی چڑھی ہوئی ہے اور کچھ خبر نہیں کون کون سے قد آور درخت جڑوں سے اکھڑ کر گر پڑیں گے، کون کون سے فلک بوس محلات زمین بوس ہو جائیں گے اور کون کون سے ہنستے بستے گھر ویران ہو جائیں گے۔


ایسے مواقع پر ہم ’’خدا نہ کرے‘‘ والا فرسودہ جملہ بھی لکھ اور بول دیتے ہیں لیکن خدا تو ’علیٰ کل شی ’قدیر‘ ہے اس کو معلوم ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ ذرا یاد کیجئے آنحضورؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ نارِنمرود میں کود گئے تھے تو آگ، گلزار بن گئی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا۔

پھر انہوں نے ہی اپنے خالق کی اطاعت کے لئے اپنے لختِ جگر کے گلے پر چھری چلا دی تھی لیکن خدا نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ چھری کے نیچے رکھ دیا اور حضرت ذبیح اللہ کا بال بھی بیکا نہ ہوا ۔۔۔ یہ دور وہ تھا جب خالقِ کائنات انسان کی نیتوں کا امتحان لے رہا تھا۔

جب حضرت ابراہیم اس امتحان میں پورے اترے تو نہ آگ اُن پر اثر انداز ہوئی اور نہ چھری ان کے فرزند مکرم کی گردن پر چلی۔

لیکن اب دوسری طرف دیکھئے کہ وہی خدا ہے اور وہی حضرت ابراہیم کی اولاد ہے جس کا نام محمدﷺ ہے۔۔۔ وہ خدا کے آخری پیغمبر ہیں اور سارے پیغمبروں سے افضل و اشرف ہیں۔

لیکن خدا اپنے اس آخری پیغمبرؐ کا جب امتحان لیتا ہے تو نہ صرف نیت کو دیکھتا ہے بلکہ عمل کی کیفیت اور اس کی پریکٹیکل پراسس کو بھی آزماتا ہے۔

مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت غارِ ثور کا واقعہ یاد کیجئے۔ خدا اپنے پیغمبرؐ کے عزم و استقلال کو آزما رہا ہے۔ یہ گویا ’’نیت ٹیسٹ‘‘ سے اگلا امتحان ہے۔ جب آنحضرتؐ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خدا غزواتِ بدر و احد میں ان کے عزمِ صمیم کا امتحان لیتا ہے۔

صرف 313مسلمانوں کا مقابلہ جب 1000کافروں سے ہوتا ہے تو وہ اپنے آخری نبیؐ کی اس دعا کو سنتا ہے: ’’اگر آج اس مٹھی بھر جماعت کی آپ نے مدد نہ کی تو دنیا میں کوئی آپ کا نام لینے والا نہیں رہے گا‘‘۔۔۔۔ لیکن اس دعا کی قبولیت کی پراسیس میں خداوندِ ذوالجلال اس طرح کی مدد نہیں کرتا جس طرح کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فرمائی تھی۔ وہ آگ کو گلزار نہیں بناتا بلکہ آتشِ جنگ کو آتش ہی رہنے دیتا ہے۔

ہاں البتہ اپنے فرشتے آسمان سے بھیجتا ہے جو اسلامی لشکر کو نظر نہیں آتے لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ یہ سارا واقعہ قرآنِ حکیم میں بیان فرمایا گیا ہے۔

ذرا یہ بھی سوچئے کہ غزوۂ بدر میں اللہ کے نزدیک کیا مشکل تھی کہ وہ لشکرِ کفار کو اسی طرح نیست و نابود کر دیتا جس طرح قومِ عاد و ثمود کو کیا تھا اور جس طرح لشکرِ فرعون کو دریائے نیل میں غرقاب کیا تھا۔ لیکن اس نے غزوۂ بدر میں ایسا نہ کیا۔

نظر نہ آنے والے فرشتے بھیجے جنہوں نے اسلامی فوج کی مدد ضرور کی لیکن پھر بھی جب کفار کو شکست ہو گئی اور وہ واپس مکہ جانے پر مجبور ہوئے تو 313مسلمانوں میں سے14 نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔۔۔ یہ تعداد ہمیں ضرور نوٹ کرنی چاہیے!


اگلے برس سن 3ہجری میں غزوۂ احد کو دیکھئے۔۔۔ خدا کا آخری نبی ﷺ اپنے دانت شہید کرواتا ہے اور ساتھ ہی70 صحابی بھی جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ لیکن آپؐ اپنے جانثاروں کے ساتھ کوہِ احد کے ایک ایسے حصے میں جا کر ’’چھپ‘‘ جاتے ہیں جو دشوار گزار ہے، کفار وہاں تک آتے ضرورہیں، للکارتے بھی ہیں لیکن پھر کہتے ہیں کہ اس تنگ اور دشوار سی جگہ میں محمدؐ کہاں ہوں گے اور ان کے ساتھی کہاں ہوں گے۔۔۔ چنانچہ وہ دعوتِ مبارزت کے بعد جب کوئی جواب نہیں پاتے تو واپس چلے جاتے ہیں اور شاداں و فرحاں مکہ میں جا کر فتح کا اعلان کر دیتے ہیں۔


غزواتِ بدر و احد کے یہ واقعات آپ نے کئی بار پڑھے ہوں گے۔ لیکن شائد یہ نہیں سوچا ہوگا کہ خدا نے اپنے عزیز ترین پیغمبرؐ کی ویسی مدد نہ کی جیسی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فرمائی تھی۔۔۔ خدا وہی تھا لیکن ابراہیم علیہ السلام سے محمدؐ تک آتے آتے خدا کی مدد کے طریقے بدل گئے تھے، علت و معلول کی مساوات میں ترمیم ہو گئی تھی، روحانیت سے مادیت کی طرف سفر تیزی سے طے ہونے لگا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمدؐ تک آتے آتے نسلِ انسانی نے وہ مقام حاصل کر لیا تھا جو عالمِ بشریت کو عالمِ روحانیت پر فوقیت اور فضلیت دیتا ہے!


پھر آنحضورؐ کے وصال کے بعد جو دور شروع ہوا اس میں معجزے اور کرامتیں رفتہ رفتہ کم ہوتی گئیں اور معجزے تو چونکہ پیغمبروں کی ذات سے خاص تھے اور حضرت محمدؐ چونکہ خاتم النبیین تھے، اس لئے سلسلہ ء معجزات تو ختم ہو گیا لیکن وہ مادی معجزات (یا انہونیاں) جو روحانی معجزات کے بعد دنیا نے دیکھے ان کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ مادی معجزے اور انہونیاں تمام روئے زمین پر وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔

کچھ مدت تک تو ولی اولیاء، پنڈت، رشی، سینٹ اور بھکشو تو اس دنیا میں جنم لیتے اور آتے رہے لیکن پھر یہ دنیا تمام کی تمام مادی ایکشن اور ری ایکشن کی تفسیر ہو گئی۔ آج ہم دعائیں کرتے ہیں، ’’خدا نہ کرے‘‘ کہتے ہیں، گڑگڑاتے اور عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ خالقِ موجودات اپنی روش تبدیل کر چکا ہے۔ آج آپ صبح و شام دعائیں مانگتے رہیں، وظائف و اوراد پڑھتے رہیں، اللہ کے حضور جھکتے رہیں، اس کے سامنے فریادیں کرتے رہیں لیکن آج اللہ کا مزاج وہی ہو چکا ہے جس کا تذکرہ قرآن بار بار کرتا ہے کہ لیسَ لا انسان الاما سعیٰ۔۔۔ اب وہ دریائے نیل کو خشک نہیں کرتا بلکہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کو اپنے وسائل سے خشک کرو اور کام میں لاؤ، اب وہ مسلمانوں کی مدد کے لئے قطار اندر قطار فرشتے نہیں اتارتا بلکہ فرماتا ہے کہ وہ انسان مومن نہیں جو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال آگے کر دے، اب اگر دشمن ایٹم بم بناتا ہے تو آپ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’جوابی ایٹم بم‘‘ بنانا پڑتا ہے، آج دشمن کی بربادی، غرقابی، تباہی اور غارت گری صرف گڑگڑانے سے ممکن نہیں بلکہ ستم گر اور جفا جو کے سامنے سینہ تان کر اس کو للکارنے اور اسے جہنم رسید کرنے سے ممکن ہوتی ہے۔۔۔ حضرت اقبال نے اس شعر میں انہی روحانی اور مادی حدود اور ان کے نتائج کی گویا ایک حدمقرر کر دی ہے، فرماتے ہیں:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی؟
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا
اس طولانی تمہید سے میرا مقصود یہ ہے کہ آج حاکم و محکوم دونوں کو اسی مادی مساوات کو اختیار کرنا ہو گا۔ آج خدا کسی ظالم اور جابر کو اسی لمحے سزا نہیں دیتا جس لمحے وہ ظلم کر رہا ہوتا ہے۔لیکن وہ ہرایکشن کا ری ایکشن ضرورکرتا ہے۔۔۔ آج نہیں توکل۔۔۔20ویں صدی کے وسط میں جب روائتی جنگ کا خاتمہ ہو گیا تو یہ جوہری بم جوہری دور کا آغاز تھا!۔۔۔ لیکن ابھی اس جوہری بم کو استعمال ہوئے ایک صدی بھی نہیں گزری۔۔۔ اس دوران پہلے امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین ’مشرف بہ بم‘ ہوئے اور ان پانچ پیاروں کے بعد چار پیارے اور بھی اس تالاب میں کود گئے۔۔۔ اسرائیل، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے بھی اپنے اپنے بم بنائے۔ ان بموں کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا نہایت کارگر ڈیٹرنس بن چکے ہیں۔ ان 9ممالک کی بقاء کو جب بھی خطرہ ہوا تو وہ ’’باہمی خودکشی‘‘ تک ضرور جائیں گے۔ یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے۔

اب ذرا اسی قاعدے کلیئے کو ایک نچلی سطح پر عام انسانوں پر بھی منطبق کر دیں۔ جب مجھے یہ یقین ہو جائے کہ آپ میری جان کے درپے ہیں تو میں وہ سارے اقدامات کروں گا جومیری بقا اور آپ کی فنا تک جائیں گے۔۔۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی تو مسز ضیاء الحق (بیگم شفیقہ ضیاء) نے سارا دن کھانا نہیں کھایا تھا۔

رات گئے جب شوہر دفتر سے لوٹے تو بچوں نے ماں کی شدتِ افسوس کا ذکر کیا اور کہا کہ ماں جی بہت غمگین ہیں۔۔۔ جنرل ضیاء، بیگم کے پاس گئے اور کہا کہ اگر تمہیں میرے اور بھٹو کے درمیان کسی ایک کو قتل کرنے کا حکم دیا جائے تو آپ کسے قتل کریں گی؟۔۔۔ سنا ہے اس کے بعد بیگم صاحبہ نے کھانا کھا لیا تھا!


دوجوہری ممالک جب ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوں گے اور ان کو معلوم ہوگا کہ دونوں کا انجام ایک ہوگا تو وہ دونوں پہلا وار کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ اس باہمی خودکشی کے قاعدے کلیئے کو نچلی سطح پر لے آئیں تو میرا مطلب یہ تھا کہ ہمارے حاکموں کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔

جوں جوں دنیا آگے بڑھ رہی ہے، خدائی احکامات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ نے اگر تاریخِ انگلستان پڑھی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس ملک کے دورِ شاہی میں شاہانِ انگلستان کا دعویٰ تھا کہ ان کو خدا کی طرف سے حاکم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

وہ اس نظریئے کو Divine right of Kingsکا نام دیتے تھے یعنی ’’بادشاہوں کی حکمرانی کا خدائی حق‘‘۔۔۔ صدیوں تک انگلستان اور یورپ کے ممالک میں یہ نظریہ رائج رہا تاآنکہ اس غبارے سے ہوا نکل گئی اور ایسی نکلی کہ اب انگلستان کا بادشاہ(یا ملکہ) تو ہوتے ہیں لیکن وہ عوام کے غلام بنے پرانے شاہی محلوں میں قیام فرما ہوتے ہیں۔۔۔ نہ اختیار، نہ اقتدار، نہ سرکار، نہ دربار۔۔۔ صرف دکھاوے کا بھاری بھرکم تاج شاہی ہے جو آج کی ملکہ ء برطانیہ کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن اس تاجدارنی کو لب کشائی کی اجازت نہیں۔یوں سمجھئے طلائی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک بے بس خاتون قیدی ہے۔

آج پاکستان کی نچلی سطح کے عوام بے بس، مقہور، مجبور اور بے سہارا ہیں۔ ان کی بیچارگی کی انتہا ہو چکی ہے اور جیسا کہ ندیم قاسمی مرحوم نے کہا تھا کہ رات جب شدتِ ظمت سے جل اٹھتی ہے تو صبح ہو جاتی ہے۔۔۔ یہی بات اداکار بلراج ساہنی کی زبانی فلم ’’ہم لوگ‘‘میں میری عمر کے فلم بینوں کو یاد ہو گی۔

اس کا ایک ڈائیلاگ تھا:’’دیا نہیں، دیئے کا تیل جلتا ہے اور جب تیل جل چکتا ہے تو صبح ہو جاتی ہے!‘‘۔۔۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ عوام کے دیئے کا تیل ختم ہو جائے اور صبح کا اجالا پھیلنے لگے ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس دیئے کو بجھنے نہیں دینا چاہیے۔

اس شدت پسندی کا تجربہ یورپ کے کئی ممالک میں ہو چکا ہے۔ میں اس کی تفصیل بتا کر پاکستان کے مظلوم عوام کو وہ راہ نہیں دکھانی چاہتا جس پر وہ مظلوم و مقہور مخلوق چلنے پر مجبور ہوئی تھی ۔۔۔اور پھر حکمرانوں کے چراغ ایک ایک کرکے بجھتے چلے گئے تھے۔

مزید :

رائے -کالم -