ہمارے سیکورٹی کیمرے نابینا کیوں ؟

ہمارے سیکورٹی کیمرے نابینا کیوں ؟
ہمارے سیکورٹی کیمرے نابینا کیوں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:عبدالجبار خان دریشک

دہشت گردی کے بڑھتے ہو ئے واقعات کے پیش نظر بڑے شہر وں اور اہم و حساس جگہوں پر کیمرے لگا ئے گئے ہیں ۔سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کیمر ے لگانا لازمی قرار دیا گیا اور سیکورٹی انتظامات کے مکمل نہ ہونے تک ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند رکھے گئے۔ ان کیمروں سے سیکورٹی اداروں کو کا فی معاونت ملی جس کی وجہ سے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات سے لے کر عام چوری چکاری کے ملز م ان کی وجہ سے پکڑے گئے ۔لاہور مال روڈ پر ہو نے والے خود کش دھماکے کے نتیجے میں شہید ہو نے والے ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کے مجرم تک ان ہی کیمروں کی مد د سے پہنچا گیا تھا۔ دہشت گرد کو چند دن میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔لیکن یہ ساری کا میا بی سیف سٹی کیمروں سے حاصل نہیں ہو ئی بلکہ کچھ پر ائیو یٹ کیمروں کی ویڈیو سے کافی فائدہ حاصل ہو ا جو مختلف دوکاندروں نے لگا ئے ہو ئے تھے۔
ملک کے بڑے شہر وں اور اہم جگہوں پر کیمرے تو لگا ئے گئے ہیں ان پر کروڑوں روپے بھی خر چ کیے گئے ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ کیمرے ناکارہ ہو تے جارہے ہیں ۔مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے ساتھ کیمرے بھی غیر معیاری استعمال کیے گئے ہیں جن کی ویڈیو کوالٹی انتہائی غیر مناسب ہے جس میں لو گ چلتے پھرتے تو نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہر وں کی شنا خت کر نا مشکل ہو جاتا ہے ۔حالیہ قصور میں زینب کے قتل میں بھی یہی کچھ ہو ا۔ ملزم کی شنا خت سیکورٹی کیمرے کی ویڈیو سے نہ ہو سکی۔ اس کا خاکہ تیا ر کر وانا پڑا ۔پہلا خاکہ بھی مشابہت نہ رکھتا تھا ۔اس کے بعد ایک اور خاکہ تیار کیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد ملک میں سیکورٹی کیمروں کو لے کر ایک نئی باعث چل پڑی ہے کہ اگر اس جگہ کیمرہ اچھی کوالٹی کا لگا ہوتا تو مجرم کی شناخت اچھے طریقے سے ہو سکتی جس کے چہر ے کی شناخت نادرہ سے کروا کر مجرم تک جلد پہنچا جاسکتاتھا۔
ہمارے ہاں جہاں پر کیمرے لگ ہو تے ہیں وہاں ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے’’خبردار آپ کو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے ‘‘ یعنی آپ یہاں کچھ نہ کریں تھو ڑا سا ئیڈ پر ہو کر جو مر ضی آئے کر لیں۔ وہاں کیمر ہ نہیں ہے ۔میرے خیا ل میں ایسا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بس ڈرانے کے لئے ہے کہ کوئی اس وجہ سے جرم نہ کرے لیکن جرم پھر بھی ہو جاتے ہیں۔اکثر ملز م دندناتے ہو ئے بنک ڈکیتی کر لیتے ہیں ۔ان کی بھی شنا خت نہیں ہو پاتی۔ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی ایسے پرانے کیمرے لگے ہو ئے ہیں جن کی کوالٹی بھی بے کار ہو تی ہے ۔جب ہمارے کیمرے کی آنکھ ناکارہ ہے تو اس اندھی آنکھ سے ڈرانے کا کیا فا ئد ہ ۔اس سے ملزم تو پکڑے نہیں جاسکتے ۔ میں اکثریہ بات لکھتا رہتا ہوں کہ ہم ٹیکنالو جی کی دوڑمیں دنیا سے بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ سے اب ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مز ید کرنا پڑے گا۔
چین نے سیکو رٹی کیمر وں کی ٹیکنا لوجی میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس چین کی شاہروں پر لگے کیمروں بچنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ان جدید ٹیکنالوجی کے حامل کیمر وں کی رینج میں آتے ہی کسی شخص کی شناخت اور پھراس کا ریکارڈ فوراً اسکرین پر آجاتا ہے۔ چین میں نگرانی کے اس نظام کا جائزہ لینے کے لیے برطانوی صحافی نے تجر با تی طور پر پولیس ریکارڈ میں خود کو مشکوک درج کرایا۔جب وہ متعلقہ شخص مانیٹرنگ نظام کی رینج میں آیا تو اسے چند منٹ میں پولیس نے حراست لے لیا۔چین میں مانیٹرنگ کے اس جد ید نظام کے لیے 17 کروڑ کیمرے نصب کیئے جاچکے ہیں‘ چینی حکومت 2020 تک ہائی ٹیک سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد 45 کروڑ تک لے جانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔مستقبل میں یہ نظام ہر شہری کی نقل و حرکت کے رویوں کی بنیاد پر ایک ریٹنگ بھی مرتب کرتا رہے گا۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ اس نظام سے نہ صرف جرائم کو روکنا بلکہ جرم ہونے سے پہلے ہی آگاہ رہنے میں مدد ملے گی۔ چین کے ایک بینک نے تو چہرہ شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر صارفین کو اے ٹی ایم کارڈ رکھنے اور پاس ورڈ یاد کرنے کی مشکل سے نکال دیا ہے۔صارفین اے ٹی ایم میں لگے کیمرے میں چہرہ شناخت کرا کر رقم نکال سکتے ہیں.لیکن دوسری طر ف ہمارے ہاں اے ٹی ایم میں نو سر با ز اپنا نظام لگا کر عوام کو لو ٹ رہے ہیں ۔
اگر ملک میں جرائم کا خاتمہ کرنا ہے تو قانون میں اصلاحات کرنے کے ساتھ بہت ساری تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی تفتیش میں معا ون ثا بت ہونے والے سیکورٹی کیمروں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ جدید کیمرے لگانے کی ضرورت ہے۔ اکثر اہم اور حساس جگہوں پارکس ‘ ہسپتالوں ‘سکولوں ‘ چوراہوں ‘پٹرول پمپ ‘ سروس اسٹیشن وغیرہ میں لگے کیمروں کو چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ بڑے دوکاندار ‘ بازاوروں ‘ مساجد ‘ گلی محلوں میں بھی کیمرے لگا ئے جائیں ۔ہر دوکاندار کو پابند کیا جائے کہ وہ کیمر ے لگائے۔ خاص کر جس میں باہر کا ویو واضع اور زیادہو۔حکومت ان کے ساتھ کسی بھی ٹیکس کی مد د میں رعایت دے کران سے کیمرے لگوا سکتی ہے۔
ملک میں محلے کی ہر بڑی مسجد میں کیمرے لگوائے جائیں جن میں خاص کر باہر والے کیمرے کا ویو زیا دہ ہو۔ ایسے بڑے گھر وں و محلے کی سطح پر لگا ئے جائیں بلد یاتی نمائندے محلہ کمٹیاں بنا کرایسا کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نظام زیادہ پیمانے پر پھیل جاتا ہے تو پولیس کو جرائم پیشہ افراد تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی اور جرم کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -