انصاف کی پھوار!

کس نے قوم کو کیا دیا، یا لیا؟ یہ ایک الجھا ہوا سوال ہے ، جس کا جواب کبھی لمحۂ حال میں نہیں ملاکرتا۔ کسی بھی ’’کردار‘‘ کے مقام و مرتبہ کا تعین تاریخ کیا کرتی ہے ، جو کہ اپنی فطرت میں ازحد بے رحم ہے۔ اس نے کبھی کسی کا لحاظ نہیں کیا۔ مَیں نے ہر دور کی تاریخ کا دیباچہ پڑھا ۔ عام کو عام اور خاص کو خاص ہی لکھا پایا۔ چھوٹے کو چھوٹا اور بڑے کو بڑا، جس نے آج جو کیا، کل تاریخ اس کے حسن و قبح کا تخمینہ لگائے گی۔ اس سے کوئی بھی مبرا نہیں ۔ تاہم بعض لوگ پردۂ سکرین پر آتے ہیں تو ان سے توقعات کی بہار جڑ جاتی ہے ۔ محترم جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب کی رعایت سے بھی قوم کا کچھ یہی حال اور خیال ہے۔
عزت مآب چیف جسٹس کھوسہ صاحب کی قانونی قابلیت ، تدبر ، حوصلے ، ٹھہراؤ اور قلندرانہ مزاج کے بارے میں دوسری رائے نہیں۔ بعض لوگ بڑی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو خود چھوٹے لگتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا اکثر و بیشتر ہوتا چلا آیا ہے اور آئندہ بھی جانے کب تک ہو گا،مگر چند افراد جو عہدہ کے برابر قد رکھتے ہیں، ان کی فہرست میں امکان، بلکہ ایقان کی حد تک ،جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب بھی داخل و شامل ہیں۔ وہ اپنے شعبہ میں کئی کتابوں کے مصنف اور قانون کی تدریس میں بہت عزت کمانے والے استاد رہ چکے ہیں۔ امید غالب ہے کہ تاریخ انہیں شخص کے بجائے شخصیت کے طور پر یاد رکھے گی۔ کیا عدلیہ کی تاریخ میں 18جنوری2019ء ایک روایت ساز دن کے طور پر طلوع ہو گا؟ ایسا کہاجاسکتا ہے، لیکن حتمی فیصلہ لکھا جانا ابھی باقی ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ جس نے کچھ دیاہو، وہی یاد رہتا ہے اور یاد رکھاجائے گا ۔ مسٹر جسٹس جناب سید منصور علی شاہ صاحب جو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، انہوں نے بعض دیگر مستحسن اقدامات کے علاوہ عدالت عالیہ میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ قائم و نافذ کیا۔ اس سے جو آسانیاں اور خوبیاں پیدا ہوئیں،وہ لاجواب ہیں۔اب وہ عدالتِ عظمیٰ میں رونق افروز ہیں اور ان کے فیصلے بول رہے ہیں۔مسٹر جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب، وکلاء کا کہنا ہے ، باتوں پر نہیں کام پر یقین رکھتے ہیں۔ عوام ان کے بارے میں حُسنِ ظن، بلکہ یقین کامل رکھتے ہیں کہ ان کے چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے ہوئے انصاف کو مزید فروغ ملے گا اور بے آوازوں کو آواز! سستے اور فوری انصاف کی کوئی سبیل ڈھونڈ نکالی جانی چاہئے جو کہ از قبیل ممکنات سے ہے۔ کیا نچلی عدالتوں کی اصلاح کا وقت ابھی نہیں آیا؟
ہفتہ رفتہ میں عدالتوں کی تاریخ، سائنس اور جغرافیہ سے آگاہ چند وکلاء بہت پراعتماد دکھائی دئیے۔ سابق صدر بار خواجہ اویس مشتاق، رائے ارشادکمال،افضال احمد بٹ ، محمد عاصم چیمہ اور ذوالفقار علی بدر صاحبان کا کہنا تھا کہ ان شاء اللہ ان کے وجود سے دائمی اثرات و ثمرات مرتب ہوں گے۔ بقول ان کے عزت مآب کھوسہ صاحب اعلیٰ کردار اور روایات و اقدار رکھتے ہیں ۔ قوم دیکھے گی کہ انصاف کی پھوار کس طرح اپنا رنگ جماتی ہے ۔ ابھی کرنے کے بہت سے کام باقی پڑے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک کام۔ قومی و سرکاری طور پر اُردو زبان کے واقعی نفاذ کا معاملہ ان میں سے ایک ہے ۔ اُردو زبان کا دُکھ آخر کو ئی تو سنے گا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ آپ نہیں سنیں گے تو اور کون؟