ایک اور سیاسی اتحاد

واہ واہ کیا بات ہے، پاکستان پر طویل عرصے حکمرانی کر نے والوں کی ۔ بظاہر دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک اور سیاسی اتحاد قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے ہاتھ ملالیا۔ پاکستان میں اسوقت جمہوری تقاضوں کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی، خیبرپختونخوا اور صوبہ پنجاب میں حکومتیں ہیں۔ حیلے بہانے سے عمران خان مخالف سیاست داں ان کی حکومت کے خلاف کئی عنوانات کے تحت بیانات تو داغ رہے ہیں۔ ن لیگ کا مسلہ یہ ہے کہ اس کے قائد نواز شریف سیاست سے عمر بھر کے لئے ناہل قرار دئے گئے ہیں، ایک مقدمہ میں انہیں دس سال اور ان کی صاحبزادی مریم کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کی سزائیں تکلیف دہ امر ضرور ہیں، لیکن مقدمات کی بنیاد ان کی مالی بدعنوانیاں ہیں۔
صوبہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے چیئر مین و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور جو خواتین شاخ کی سربراہ ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور سندھ کے وزیراعلیٰ کو سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی تحقیق و تفتیش کردہ رپورٹوں کے مطابق منی لانڈنگ سمیت مختلف الزامات کا سامنا ہے۔ ان کے لئے یہ مرحلہ نہایت اہم یوں ہے کہ مقدمات کی باقاعدہ سماعت کا نتیجہ عین ممکن ہے ان کے حق میں نہیں نکلے۔ یہ صورت حال ان کے لئے یقیناًتشویش ناک ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی کچھ ہونے سے بچنے کے لئے آصف زرداری نے ن لیگ کے موجودہ سربراہ شہباز شریف سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ حالانکہ ماضیٰ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف جس طرح کی غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو معتوب کرنے کے لئے سخت الزامات عائد کرتے رہے ہیں ، وہ بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا پاکستانی عوام بھول سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست پر طویل عرصے تک حاوی رہنے والے لوگ کس کس انداز کی مالی بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں۔
اخبارات نے وزیراعظم عمران خان کا رد عمل اور ان کے بعض مشیروں کے یہ بیان شائع کئے ہیں کہ پاکستان لوٹنے والا ٹولہ اکٹھا ہوگیا، اپوزیشن کسی این آر او کے لئے دباؤ بڑھا رہی ہے، احتساب نہیں روکا جاسکتا،انہوں نے قومی اسمبلی سے حزب اختلاف کے واک آؤٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واک آؤٹ این آر او حصول کے لئے دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے، یہ حربے نیب کے کرپشن کیسز سے بچنے کے لئے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک مشیر نے کسی کا نام لئے بغیر سوال کیا کہ کیا جمہو ریت منتخب سیا سی رہنماؤں کو کرپشن اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کانام ہے ؟یوں محسوس ہوتا ہے کہ انکے نزدیک جو شخص عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہو جائے اسے قومی خزانے پرڈاکہ زنی کا لا ئسنس مل جا تا ہے۔ پاکستان کو لوٹنے والا ٹولہ اکٹھا ہو گیا ہے، اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا تو بڑی خوش آئند بات ہے،ہم چوروں اور ڈاکووؤ ں کے اس گروہ سے ایک ساتھ ہی نمٹیں گے،ان کے اکٹھے ہونے سے ہمارے لئے مزید آسانیاں ہو جائیں گی۔
اتحاد کے لئے ہاتھ ملانے والے اپوزیشن رہنماوں کے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری کا موڈ انتہائی جارحانہ تھا۔جنہوں نے حکومت کے خلاف تین نکات پر زوردیا۔اسی اجلاس میں آصف زرداری نے اپوزیشن اتحاد کی نوید بھی سنادی ۔ جن تین نکات پر اتحاد کیا جارہا ہے اس میں 23 جنوری کے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت ، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت اور ایوان بالا یعنی سینیٹ کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لینے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی، جبکہ سابق صدر آصف زرداری نے ٹھنڈے موسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس موسم کو گزرنے دیا جائے،موسم بہار شروع ہونے پر عوام کو متحرک کیا جائے گا ، تب عوام سڑکوں پر آنے کیلئے ہر طرح تیار ہوں گے۔
اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد کے سلسلے میں جمیعت علماء اسلام کے مولانا ٖفضل الرحمان طویل عرصے سے سرگرم تھے۔ کبھی نواز شریف تیار نہیں ہوا کرتے تھے تو کبھی آصف زرداری ہاتھ ملانے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے اور سینیٹ کے چیئر مین کے ا نتخابات میں تو پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کرنا تو درکنا، مخالفت ہی کی تھی۔ سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے بھی شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کر کے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پر آمادہ کیا اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی صورت حال پر ورکنگ ریلیشن شپ پر گفتگو بھی کی ۔ انہوں نے میاں نوازشریف سے کوٹ لکھپت جیل میں بھی ملاقات کی تھی۔ان کاخیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد وقت کا تقاضا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک اس وقت کسی سیاسی افراتفری کا متحمل ہو سکے گا ، کیا ملک میں رائج جمہوریت میں کوئی کمی ہے جس میں اضافہ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے؟ کیا ملک کو عام انتخابات کے انعقاد کی طرف دھکیلنا ہے ؟ گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد پر بائیس ارب روپے خرچ کئے گئے تھے ۔ کیا پاکستان کی موجودہ معیشت اس قسم کا فوری طور پر کوئی بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایک مخصوص طبقے کی جمہویت کے لئے کیا جانا چاہئے؟
پاکستان میں حکومت مخالف جماعتوں کا اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مختلف ادوار میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخا لف ہونے کے باوجود حکومت کرنے والی جماعت کے خلاف متحد ہوتی رہی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان اتحادوں کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکلا ہے۔ حکومتیں کرنے والی جماعتیں ضرور نقصان میں رہی ہیں، لیکن اتحاد کرنے والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا۔ ایوب خان کے خلاف کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کچھ حاصل کرنے کی بجائے ملک میں مارشل لاء لگوا بیٹھی تھیں۔عام انتخابات کے نتیجے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا گیا تھا، بلکہ ملک کو ہی دولخت کرا بیٹھے تھے۔ بھٹو حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد پر تحریک چلانے کے لئے قائم پاکستان قومی اتحاد نظام مصطفے تو نافذ نہیں کرا سکا تھا البتہ ملک میں ایک اور مارشل لا ء لگا دیا تھا۔ اتحادوں کے قیام کے نتیجے میں پاکستانی عوام کو کبھی کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ اسی لئے عوام نے سیاسی جماعتوں کی طرف توجہ دینا ہی چھوڑ دی۔ انہیں اس بنیاد پر جلسے جلوسوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی ہے۔ یہ ہی سیاست کا المیہ ہے کہ عوام کی اکثریت لاتعلق ہو گئی ہے۔
جن تین نکات پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ اتحاد قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں ، ان سے عوام کو کیا حاصل ہونا ہے۔ منی بجٹ کا اعلان ناگزیر ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اقدامات تو کرنا ہی پڑیں گے۔ اگر ٹیکس نہیں لگے گا تو قرضوں کا مزید بوجھ اٹھانا پڑیگا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے ایک ایسے وقت میں حمایت کی تھی جب ملک شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔پاکستان کے عدالتی نظام میں جو سقم موجود ہیں ، مقدمات کا سامنا کرنے والوں کے وکلاء ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ بعض حلقے تو شد و مد کے ساتھ اس تجویز کے حامی ہیں کہ ملک میں فوری انصاف کے لئے سعودی نظام عدل قائم کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے سعودی قاضیوں کی خدمات بھی حاصل کرنا چاہئے۔ حکومت مخالف سیاسی جماعتیں چونکہ سینیٹ میں اکثریت رکھتی ہیں، اس لئے سینٹ کا کنٹرول بھی حزب اختلاف کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اس کا صاف مقصد یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو قانون سازی کے معاملات میں اپاہج کرنا مقصود ہے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیاں بظاہر ہم آہنگی سے حکومت کو کوئی بڑا د ھچکا تو نہیں لگتا نظر آتا ہے، لیکن ملک میں پانچ ماہ قبل ہی ہونے والے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر افرا تفری کی کیفیت ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ اس تماش گاہ میں دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مخالف جماعتیں اس اتحاد سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟