سدا بادشاہی اللہ کی ہے

کتنی ہی ایسی باتیں روزانہ ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ دنیا میں سدا بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، باقی سب کو کچھ وقت کے لئے بادشاہی ملتی ہے پھر واپس لے لی جاتی ہے،جو شخص بھی اقتدار کے دنوں میں یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب اس کے اختیار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا، وہ غافلوں کے قبیلے کا سرخیل بن جاتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک نیا چہرہ اقتدار اور منصفی کے منصب پر فائز ہو چکا ہے، کل تک اسی عمارت میں جس شخص کا طوطی بولتا تھا، اب اسے بھی شاید ایک سائل یا مؤکل کی حیثیت سے آنا پڑے۔ اس کے قلم کی وہ طاقت ختم ہو گئی ہے جو قضا و قدر کے فیصلے کرتی تھی۔ آج سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں پتہ چلے گا خلقِ خدا انہیں کیا کہتی ہے۔ وہ جب چیف جسٹس کے منصب پر تھے تو اپنے خلاف بات کرنے والوں کو طلب کر لیتے تھے، جیلوں میں ڈال دیتے تھے، مگر اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔
ان کے اچھے کاموں پر انہیں یاد کیا جائے گا اور جو فیصلے انہوں نے متنازعہ کئے،ان پر تنقید ہو گی۔ آخری دنوں میں انہوں نے وضاحتیں بھی کیں، جانے انجانے میں ہونے والی زیادتی پر معافی بھی مانگی۔ مگر ایسے فیصلے تاریخ کرتی ہے۔ جب کسی کا جنازہ سامنے پڑا ہو اور اس کے ورثاء یہ اعلان کر رہے ہوں کہ جس نے کچھ لینا دینا ہے،وہ ہمیں بتائے، ہم دینے کو تیار ہیں تو اس موقع پر ایک شخص بھی زبان نہیں کھولتا، کیونکہ وہ موقع ہی ایسا ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس منصب پر بیٹھ کر وضاحتیں کرتے رہے معافی مانگتے رہے، مگر کس نے زبان کھولنی تھی، زبانیں تو اب کھلیں گی اور کھلتی ہی چلی جائیں گی۔ بہر حال انہوں نے اپنے محدود وقت میں جو کرنا تھا کیا، وہ بھی جانتے تھے کہ سدا چیف جسٹس نہیں رہنا اور کچھ کرنا بھی ہے، اس لئے وہ آخری دن تک عدالت لگا کے بیٹھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ان کی ذات عوام کی امیدوں کا مرکز بن گئی تھی۔ یہ کہا جانے لگا تھا کہ ثاقب نثار کو توسیع ملنی چاہئے، مگر یہ سب ایک واہمہ ہوتا ہے، ایک جذباتیت ہوتی ہے۔ کوئی انسان اتنا ناگزیر نہیں کہ اس کے جانے سے کام رک جائے۔ یہ ہماری قومی خرابی ہے کہ ہم شخصیات کو پاکستان کے لئے لازم و ملزوم سمجھ لیتے ہیں۔ خاک کے پتلے کو خدائی درجہ دے دیتے ہیں، حالانکہ اس نے منصب سے بھی اترنا ہوتا ہے اور پھر قبر میں بھی جانا ہوتا ہے۔ سدا تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات نے ہی رہنا ہے۔
ابھی مَیں کل ہی ایم پی اے ملک مظہر عباس راں کی نماز جنازہ میں شریک تھا، جس میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، گورنر محمد سرور چودھری بھی لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ چند روز پہلے ہی میری ملک مظہر عباس راں سے سینئر صحافی ظفر آہیر کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ ہماری کالج کے زمانے کی یاد اللہ تھی۔ اُنہیں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کی طلبہ یونین کا صدر ہم دوستوں نے ہی بنایا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ملتان میں پی ٹی آئی کام نہیں کر رہی، ایم پی اے صاحبان کو بے اختیار بنا رکھا ہے۔ اُن کا کہنا تھا مَیں واحد بندہ ہوں جو اس پر احتجاج کرتا ہے، باقی ایم پی اے تو بولتے تک نہیں۔ مظہر عباس راں کئی بار ایم پی اے بنے اور ہر بڑی جماعت کی طرف سے بنے۔ گویا ان کی اپنے حلقے قادر پور راں میں بادشاہت قائم تھی، لیکن ان کی بادشاہت بھی سدا کیسے قائم رہ سکتی تھی، اچانک موت کا جھکڑ چلا اور ان کی سلطنتِ زندگی کو اکھاڑ کر لے گیا۔
ان کے جنازے میں ہزاروں افراد موجود تھے،جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مظفر عباس راں بھریا میلہ چھوڑ کر دنیا سے گئے ہیں، مگر چلے تو گئے ہیں، کیا اس میں آنکھ والوں کے لئے نشانیاں نہیں ہیں، کیا ایسے واقعات یہ پیغام نہیں دیتے کہ اصل چیز وہ مہلت ہے جو قدرت نے انسان کو دے رکھی ہے؟وہ مہلت ختم ہوتی ہے تو سب ختم ہو جاتا ہے۔ انسان نے بھی اسی لئے کچھ موتیں مقرر کر رکھی ہیں، ان کے بعد منصب بھی ختم ہو جاتا ہے اور اقتدار بھی۔ جو اس حقیقت کو پلے باندھ لیتے ہیں،وہ دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے ہیں،جو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اپنے داؤ پیچ سے وقت کو لگام ڈال دیں گے۔۔۔ وہ غافل ہی نہیں گمراہ بھی ہیں۔
یہ جملہ بھی شاید ہمارا ہی ایجاد کردہ ہے کہ فلاں شخص کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کہتے تھے کہ ہمارے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ قوموں نے اپنے اندر اس برائی کو پنپنے نہیں دیا، وہاں شخصیت پرستی جیسی برائی موجود نہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور میں کوئی شخص دو بار سے زائد مرتبہ صدر منتخب نہیں ہو سکتا، چاہے اس نے امریکہ کے لئے آسمان سے تارے ہی کیوں نہ توڑ لئے ہوں۔ برطانیہ جیسی جمہوریت میں کوئی بھی خود کو ناگزیر نہیں کہہ سکتا، حتیٰ کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی اس برائی سے پاک ہیں اور ان کا وجود کسی شخص کی وجہ سے نہیں۔ یہاں یہ عالم ہے کہ ہر شعبے میں جو اقتدار پر آ جائے، وہ ملک کے لئے ناگزیر ہو جاتا ہے، اس کے بغیر اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔
ملک کا جو آرمی چیف بنتا ہے، اسے اس قدر شخصی شناخت مل جاتی ہے کہ فوج اور ملک اس کے بغیر بے یارو مدد گار لگنے لگتے ہیں۔ آپ ذرا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں عوام کے تاثرات کو یاد کریں، ہر طرف سے دہائی دی جا رہی تھی کہ اُنہیں ملازمت میں توسیع دی جائے، کیونکہ ان کا متبادل فی الوقت کوئی نظر نہیں آتا، مگر وہ گئے تو پتا چلا کہ پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور فوج اپنا کام اسی طرح تندہی سے کرتی رہی۔افتخار محمد چودھری چیف جسٹس تھے تو ان کی ریٹائرمنٹ قریب آتے ہی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی کہ ان کے بعد عدلیہ کا کیا بنے گا۔ وہ گئے تو عقدہ کھلا کہ عدلیہ تو ان کے دور میں برباد ہو رہی تھی، تاہم انہوں نے از خود نوٹسوں سے اپنا جو امیج بنایا ہوا تھا، اس کی وجہ سے عدلیہ کے لئے وہ ناگزیر نظر آتے تھے۔ سیاستدان تو از خود یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہیں تو پاکستان ہے، وگرنہ ان کے جاتے ہی ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔
اب آپ نوازشریف اور آصف علی زرداری کی مثالیں دیکھیں۔ دونوں نے اقتدار کو جی بھر کے دیکھا اور انجوائے کیا، لیکن اس کے باوجود یہ کہتے رہے کہ ان کی سیاست کو ضرورت ہے۔ ملک چلانے کے لئے ان کا سیاست میں حصہ لینا لازمی ہے۔ نوازشریف اگر از خود عملی سیاست سے دستبردار ہو جاتے تو سیاست میں ان کا سکہ چلتا رہتا، وہ جب وزیر اعظم تھے تو کئی ایسے مواقع آئے، جب وہ اقتدار کو ٹھوکر مار کر ایک مدبر سیاستدان کا مرتبہ حاصل کر سکتے تھے۔ مگر وہ آخر وقت تک اقتدار سے چمٹے رہے۔ اس خمار سے ہی نہ نکل سکے کہ ان کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ جب انہیں نا اہل قرار دے کر وزیر اعظم ہاؤس سے نکالا گیا تو اس وقت بھی وہ یہی سمجھتے رہے کہ انہیں نکال کر ملک نہیں چلے گا۔ پھر ایک احمقانہ مہم چلائی، جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا، اس لئے کہ نا اہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا اور اس کا فیصلہ سڑکوں پر احتجاج سے تبدیل نہیں ہوتا۔
آج وہ کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھے یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میرے بغیر بھی ملک چل رہا ہے، بلکہ میری تو اب کسی کو یاد بھی نہیں آتی۔ دنیا میں جہاں جہاں کسی نے بھی اقتدار کو اپنے لئے لازم و ملزوم بنا لیا ہے، اس نے نقصان اٹھایا ہے۔ قذافی، صدام حسین، حسنی مبارک جیسے لوگوں کی مثالیں بھی سامنے ہیں، ایران کے شہنشاہ کا بھی یہی حشر ہوا تھا،جب یہ دنیا ہی عارضی ہے تو اس کی کوئی چیز دائمی کیسے ہو سکتی ہے؟ہر صاحبِ اختیار کو صرف ایک بات پلے باندھنی چاہئے۔ یہ دنیا عارضی قیام کی جگہ ہے اور اس کا اقتدارو اختیار بھی عارضی ہے۔ بیورو کریٹس ہوں، جج ہوں، جرنیل ہوں یا سیاستدان انہیں بالآخر طاقت اور اقتدار سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ کوئی اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جاتا ہے اور کسی کو عوام اتار دیتے ہیں جو سیانے ہیں وہ ملنے والے اختیار و اقتدار کو قوم اور ملک کی خدمت کا ذریعہ بناتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر نیک نامی کمانی ہے، عوام کے دلوں میں جگہ بنانی ہے اور تاریخ میں امر ہونا ہے تو پھر اپنی ذات کو تج کر وہ کام کرنے ہیں جو اقتدار کی کرسی سے اُترنے کے باوجود عوام کے دلوں سے نہیں اترنے دیتے۔