وہ جج صاحب جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں شریک نہ ہوئے لیکن نئے چیف جسٹس نے انہیں اپنے بینچ میں شامل کرلیا

وہ جج صاحب جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں شریک نہ ہوئے لیکن ...
وہ جج صاحب جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں شریک نہ ہوئے لیکن نئے چیف جسٹس نے انہیں اپنے بینچ میں شامل کرلیا

  

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے جمعرات کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو دیے جانے والے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کی لیکن وہ جمعہ کے روز نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ پہلے ہی کیس کی سماعت میں بینچ کا حصہ بنے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں جمعرات کو فل کورٹ ریفرنس کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہواجس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت باقی 16 جج صاحبان نے شرکت کی۔ چیف جسٹس کے اہل خانہ بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود رہے لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے کچھ دن قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں ایک فیصلہ تحریر کرتے ہوئے اختلاف کیا تھا۔ دوسری جانب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بطور چیف جسٹس پہلے ہی بینچ کا حصہ بنے۔

حلف اٹھانے کے بعد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پونے بارہ بجے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ان کے ہمراہ غیر ملکی مہمان بھی تھے۔ چار ملکوں کے جج صاحبان چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ ججز کی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ نائجیریا کی ریاست برونو کے چیف جج، ترکی کے زیرانتظام قبرص کے جج، انڈیا اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سابق ججوں کو اٹارنی جنرل نے پاکستان اور سپریم کورٹ میں خوش آمدید کہا ۔

نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے منشیات سمگلنگ میں نور محمد کی سزا کیخلاف اپیل کی سماعت کی۔

ملزم کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار پر منشیات برآمدگی کا الزام ہے، مقدمہ ہے کہ وہ گھر کے باہر کرسی پر بیٹھا تھا جس کے نیچے دو کلو چرس کے دو پیکٹ پڑے ہوئے تھے۔وکیل نے کہا کہ دراصل ملزم نور محمد گھر کے باہر نہیں تھا بلکہ گلی میں تھا لیکن پولیس نے برآمدگی ڈال دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ چرس گلی میں پڑی ہوئی تھی اور آپ کا موکل وہاں ویسے ہی موجود تھا تو اس دلیل سے ہمارے مہمان بھی اتفاق نہیں کریں گے، اس پر غیر ملکی ججز سمیت کمرہ عدالت میں موجود افراد مسکرا اٹھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدار کی منشیات پر سزا کم ہوئی ہے اور اگر آپ کی اپیل سماعت کیلئے باقاعدہ منظور کر لی تو پھر میرٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے سزا بڑھائی جا سکتی ہے۔وکیل نے کہا کہ ایسا تو میں نہیں چاہوں گا۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم بھی ایسا نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ نور محمد کے خلاف تھانہ سٹی میانوالی میں 21 سو گرام چرس برآمدگی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ نے چرس کے کیمیائی تجزیے کی رپورٹ، شواہد اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد قصوروار قرار دیتے ہوئے ساڑھے چار سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔سپریم کورٹ بھی یہ سمجھتی ہے کہ ماتحت عدالتوں نے درست فیصلے دیے ۔ چرس برآمد کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ملزم سے ایسا کوئی ذاتی عناد نہیں تھا کہ جھوٹے مقدمے میں پھنساتے۔ اس لئے سزا کے خلاف اپیل کو سماعت کیلئے منظور کرنے کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

منشیات برآمدگی کے بعد چیف جسٹس کے سامنے ایک اور ملزم کی ضمانت کا مقدمہ لگا۔ دلائل کے بعد وکیل نے خود ہی قانونی پوزیشن کو سمجھ کر اپیل واپس لینے کی استدعا کردی۔ تیسرے مقدمے میں چیک ڈس آنر ہونے کے ایک ملزم کو عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے پہلے روز 35 میں تین مقدمات نمٹانے کے بعد عدالت برخاست کردی۔

مزید :

اہم خبریں -قومی -