پاکستان میں پَست معیار تعلیم کی وجوہات اور ان کا حل (1)
سٹیزن کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام 15 نومبر 2019ء کو مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس کا موضوع تھا……”پاکستان میں پست معیار تعلیم کی وجوہات اور ان کا حل“…… کونسل کے صدر رانا امیر احمد خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے مہمان مقرر کا مختصر سا تعارف کرایا۔ موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے ڈاکٹر محمد زکریا (ریٹائرڈ) پرنسپل اورینٹل کالج لاہور کو مدعو کیا گیا۔ آپ کا تعارف ایک انتہائی محنتی، دیانتدار اور فرض شناس معلم کے طور پر کرایا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے آپ کا تعلق امرتسر سے تھا۔ تقسیم ہند کے وقت آپ تیسری جماعت کے طالب علم تھے، با الفاظِ دیگر راقم اس وقت دوسری کلاس کا متعلم تھا۔ ایک اعتبار سے ہم دونوں ہم عصر بنتے ہیں۔ میرا جنم سرگودہا ضلع تحصیل بھلوال کے ساتھ ایک گاؤں میں ہوا ……تعلیم کی جو روئیداد، ڈاکٹر محمد زکریا نے امرتسر سکول کے حوالے سے دی،وہی صورت حال ہمارے گاؤں کے پرائمری سکول کی تھی۔
اس زمانے میں پرائمری سکول چار جماعتوں کا ہوا کرتا تھا، پانچویں جماعت سے مڈل سکول/ ہائی سکول میں جانا پڑتا تھا۔ مڈل سکول بھی دو طرح کے ہوتے تھے…… ایک ورنیکلر مڈل اور دوسرا اینگلو ورنیکلر…… ورنیکلر مڈل کو اینگلو ورنیکلر کے برابر، یعنی (AT Par) کرنے کے لئے طلبہ کو ایک مکمل سال صرف انگریزی مضمون ہی پڑھایا جاتا تھا تاکہ وہ دوسرے اینگلو ورنیکلر طلبہ کے برابر ہو جائیں اور انہیں ہائی سکول کی نویں جماعت میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اپنے خطاب میں موصوف نے اس وقت کی تعلیم کے حوالے سے اساتذہ کے کردار پر روشنی ڈالی کہ وہ بڑے فرض شناس ہوا کرتے تھے اور طلبہ کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا کرتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت (دونوں) کا انہیں بہت احساس ہوا کرتا تھا۔ بہر کیف میٹرک کی تعلیم کے بعد کالج،پھر یونیورسٹی تعلیم کی طرف آئے۔ انہوں نے اس بات سے بھی سامعین کو آگاہ کیا کہ یونیورسٹی تعلیم میں اب وہ ڈسپلن نہیں رہا، جو اس زمانے میں تھا، اب طلبہ، یونیورسٹی اساتذہ کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے سامنے ہی سگریٹ پینا، جیسے ایک معمول کی بات ہو۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، موصوف نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ مَیں ایک بار اورینٹل کالج کی بلڈنگ کے اوپر کے حصے سے نیچے اتر رہا تھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ عین سیڑھیوں کے درمیان طلبہ اور طالبات بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے…… مجھ سے نہ رہا گیا اور انہیں بتایا کہ یہ راستہ ہے، راستے کو ایسے بلاک نہیں کیا کرتے۔ گویا تعلیمی معیار کی پستی کے ساتھ ساتھ، نظامِ تربیت میں بھی، اتنی جھول اور کمی آ چکی ہے کہ الا مان الحفیظ!
ڈاکٹر محمد زکریا نے آخر میں سامعین سے کہا کہ آپ ان باتوں کا حل بتائیں کہ اصلاح کیسے کی جائے؟ اس تعلیمی پستی کو دور کیسے کیا جائے؟ اور کون کون سے اقدامات اٹھائے جائیں، جن کے ذریعے ہم دوبارہ اپنے تعلیمی معیار کو بہتر کر سکتے ہیں؟ سوال جواب کا سیشن ہوا، وہ بھی خاصا پریشان کن قسم کا تھا۔ سوال کرنے والوں نے بھی پستی کے حل کا جواب دینے کی بجائے، مزید سوالات کی بوچھاڑ کی۔ سٹیزن کونسل کی تکریم کے پیش نظر مہمان مقرر کی تعظیم واجب ہے۔
مہمان تو مہمان ہوتا ہے، اس کی تعظیم و تکریم کرنا، تمام حاضرین و سامعین کے لئے لازم ہے جس کا اظہار کیا گیا۔ بہر کیف اتنی بھاری بھرکم تعلیمی شخصیت، جس نے تاریخ ادبیات اردو کئی جلدوں میں مرتب کی ہو، اس کی تعظیم و تکریم اور اس کے علمی قد کاٹھ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف اردو ادب کے معلم تھے۔ وہ اردو ادب کو کتب کے حوالے سے خوب جانتے تھے اور اس پر انہوں نے قابل قدر کام کیا جو قابل صد ستائش ہے۔ ڈاکٹر محمد زکریا کا محکمہ تعلیم میں بڑا جانا پہچانا نام ہے۔ وہ یونیورسٹی میں تھیسز وغیرہ کی نگرانی کے علاوہ اس کی ریویو کمیٹی کے ممبر ہونے کی حیثیت میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ بقول ان کے اس کمیٹی کی کارکردگی بھی معیاری نہیں،جو تعلیم کی پستی کی ایک وجہ کہی جا سکتی ہے، کیونکہ یونیورسٹیوں کا کام ہی تحقیق کرنا ہوتا ہے۔
اس سے موجودہ کام کا جائزہ اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے…… موصوف نے باتوں باتوں میں یہ بھی بتایا کہ مرحومہ کلثوم نوازشریف، سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی اہلیہ بھی ان کی شاگرد تھیں۔ انہوں نے ایم اے کے ساتھ پی ایچ ڈی کی تھی۔ بگڑے ہوئے تعلیمی پستی کے اسباب کو دور کرنے کے لئے اگر موصوف اس وقت کے وزیر اعظم کی اہلیہ کی خدمات لیتے……تو کیا ہی بہتر ہوتا…… کہ کسی نہ کسی درجے میں تعلیمی معیاری پستی کو روکنے اور اس میں بہتری لانے کے لئے کچھ نہ کچھ سہارا مل جاتا، لیکن موصوف کی انا اور خودداری نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ کسی شاگرد سے ایسے کسی کام کے لئے مدو معاونت کے لئے خدمات مستعار لیں۔ ان کے مطابق یونیورسٹی تعلیم میں تھیسز کا معیاری نہ ہونا اور نقل در نقل کے ذریعے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا، ایک معمول بن چکا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ طلبہ جلدی میں ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی موضوع لے کر (خواہ اس پر پہلے ہی تحقیق ہو چکی ہو) دوبارہ کاپی کر کے، اپنے تھیسز منظور کرا کر، ڈگری لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ تو ادب اور نہ ہی تعلیم کی اہمیت ہوتی ہے، بلکہ صرف ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی معاشی حالات سنوارنے کے لئے۔
سب سے آخر میں خالد محمود چیئرمین مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی باری آئی۔ موصوف کا تعارف کچھ یوں ہے…… آپ ایم اے تاریخ، گولڈ میڈلسٹ، فرسٹ کلاس فرسٹ، ایم اے پولٹیکل سائنس، ایل ایل ایم (ہارورڈ یونیورسٹی) ہیں۔ آپ سی ایس ایس کرنے کے بعد، انکم ٹیکس گروپ میں آئے۔اپنے تعارف میں انہوں نے بتایا کہ سنٹرل ماڈل سکول لاہور کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے (آنرز)،پھر ایم اے (تاریخ) کیا۔کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج مری میں تاریخ کے لیکچرار رہے، پھر سی ایس ایس کی تیاری میں لگ گئے۔ سرکاری ملازمت میں مختلف ذمہ داریاں نہایت احسن طریق سے سر انجام دیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے، اپنی والدہ ماجدہ کی ایک مثال دی۔
ایک بار والدہ صاحبہ اپنی بیٹیوں کے کپڑے سلائی کرانے کے لئے مقامی درزن کو دکھا رہی تھیں تو ایک کپڑا جو میرے لئے مختص تھا، اس کو بھی ساتھ رکھا ہوا تھا۔ درزن نے اس کپڑے کے بارے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ میرے بیٹے کے لئے ہے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا کپڑا کوئی درزن سیئے۔ درزن نے جب یہ کہا کہ اسے کیسے معلوم ہوگا کہ اس کے کپڑے ایک درزن نے سیئے ہیں یا درزی نے…… تو والدہ محترمہ نے اسے بتایا کہ مَیں اسے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتی ہوں تو مَیں اس کے ساتھ جھوٹ کیسے بول سکتی ہوں؟ (جاری ہے)