فیصل واوڈا اور فوجی بوٹ ،ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے راہنما " فیصل واوڈا "ایک نجی ٹی وی کےبراہ راست پروگرام میں گفتگو کے دوران کافی جذباتی دکھائی دئیے۔ کہتےہیں کہ انسان جوش میں کبھی کبھی ہوش کھو بیٹھتا ہے،کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب " فیصل واوڈا "دوران گفتگو ایک فوجی بوٹ دکھارہےتھے،اس جذباتی منظر کے نتائج پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ سوال پوچھنا چاہوں گی کہ جب فیصل واوڈا ٹی وی چینل پر " بوٹ " ساتھ اٹھا کر لائے تو کیا دیگر شرکاءقمر زمان کائرہ اورجاوید عباسی لاعلم تھے؟؟؟ایساہرگزنہیں ہوسکتا توپھر کسی نے بوٹ لانے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟؟؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سےجانتے تھے کہ کیا ہونے والاہے ؟؟؟ مگر اس کے باوجود سب نے یہ ہونے دیا،جب فیصل واوڈا نے ن لیگ کے بارے میں بولنا شروع کیا اور ساتھ میں فوجی بوٹ دکھایا حتیٰ کہ قمرزمان کائرہ اور جاوید عباسی پروگرام چھوڑکرچلےگئے۔ اتنا سب کچھ ہوگیامگر پروگرام کےمیزبان " کاشف عباسی " نےفیصل واوڈا کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔بعدازاں پیمراکا سارا غصہ " کاشف عباسی " نکلا اور ان پردو ماہ کی پابندی لگ گئی اورپروگرام "آف دی ریکارڈ "بھی دوماہ کےلیےبند ہوگیا۔
کاشف عباسی الیکٹرانک میڈیا کا ایک مستندنام ہیں،سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ انہوں نے یہ سب کیوں ہونے دیا؟؟؟کیا اُن پرکسی سیاسی شخصیت کادباؤتھا؟؟؟ اس سوال کا بہتر جواب تو کاشف عباسی ہی دےسکتےہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے فیصل واوڈا کو پندرہ دن تک الیکٹرانک میڈیا سے Ban کردیاہے۔ گویا ملک ایسےلوگوں کے ہتھے چڑھ گیاہےجنہیں یہ تک نہیں پتاکہ پبلک میں کیسے بات کرنی ہے ؟؟؟ کیا انہیں اب سوچ سمجھ کر بولنا بھی سکھاناہوگا ؟؟؟
دراصل یہ پورا پروگرام " فکس میچ " تھا۔ فیصل واوڈا یہ بھول گئےکہ بھلےہی وہ ن لیگی قیادت کے طرزِعمل پر جائز تنقید کررہےہیں مگر وہ یہ بھول گئےہیں کہ وہ بطور ادارہ افواجِ پاکستان کے وقار کے منافی ایک حرکت کے مرتکب ہورہے ہیں،یہ ایک انتہائی غیرسنجیدہ اور غیراخلاقی رویہ تھااوریہ بات خلاف تہذیب بھی تھی،اگر ہم محافظ کو عزت نہیں دیں گے تو اس میں ہمارا اپنا نقصان ہے۔اس سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا , جوکہ ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنا وہ تو شکر منائیےکہ جب آرمی ایکٹ ترمیمی بل پارلیمنٹ میں گیاتو کوئی نیامسئلہ سامنے نہیں آیا اور مسلم لیگ ن نےاپنے بیانیے " ووٹ کو عزت دو" سےہٹ کر بل کی حمایت کردی پھر سابق آرمی چیف کے خلاف خصوصی عدالت نے انتہائی توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے فیصلہ تحریر کیا , جس کا متن غیر اسلامی , غیر انسانی اور غیر اخلاقی تھا۔ یہ ہم کس طرف جارہے ہیں ؟؟؟ افواجِ پاکستان کے خلاف ماضی کی کچھ غلطیوں کو بنیادبناکر ایک غیر محسوس طریقے سے نفرت پھیلائی جارہی ہے۔
انفرادی کرداروں کی آڑ میں بطور ادارہ افواجِ پاکستان کےخلاف زہرافشانی کس کے ایجنڈے پر ہورہی ہے؟؟؟ یہ مت بھولیے کہ انسان خطا کا پتلاہے , اچھے اور برے ہر کردار کےحامل افرادآخرکار چلےہی جاتےہیں مگر ادارے ان کےجانےکے بعدبھی چلتےرہتےہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال ملکی تاریخ کے مقبول ترین ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور صاحب ہیں،بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ان کی خدمات کی پوری قوم معترف ہے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف ایک ہردلعزیز شخصیت تھے مگر انہوں نےمدتِ ملازمت میں توسیع لینے کی بجائےریٹائرمنٹ لینا مناسب سمجھا ۔ موجودہ آرمی چیف قمرجاویدباجوہ بھی توسیع نہیں لیناچاہتےتھے مگر حکومت نےپرزور اصرار کرکےتوسیع لینےپرآمادہ کیا۔ سیا سی جماعتوں کے کارکنان کےلیے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ خود کو شخصیات سے نہیں نظریات کا پیروکار بنائیں تاکہ سیاسی اداروں کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے۔ جس دن ہم نے " شخصیات " پر اداروں کو ترجیح دینا سیکھ لیا , ہماری قومی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی ضرور رونما ہوگی ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔