پیپلز پارٹی اور موجودہ حالات

پیپلز پارٹی اور موجودہ حالات
پیپلز پارٹی اور موجودہ حالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پیپلز پارٹی  پی ڈی ایم  کے اندر رہتے ہوئے جو  کردار ادا کر رہی ہے،اس پر واہ واہ بھی ہو رہی ہے اور پی ڈی ایم کی کئی دیگر  جماعتوں کے  راہنما  دبے  لفظوں  اس  پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان دنوں کسی بھی محفل  میں اگر بات سیاست  پر ہو  تو یہی موضوع ہو تا ہے۔پیپلز پارٹی کے  بڑے اہم راہنما،گجرات پیپلز پارٹی کے صدر  اور  میرے جگری یار   زاہد سلیمی  کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب کھاریاں کے ایک خوبصورت شادی ہال میں تھی،شدید سردی،دھند اور کرونا  کے باوجود علاقے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد شریک تھی،محسوس ہو رہا تھا  کہ اس علاقے کے  لوگ  زاھد سلیمی سے محبت کرتے ہیں۔یہ علاقہ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمرالزماں کائرہ کا ہے اور عملی طور پر وہی اس تقریب کے میزبان تھے۔لالہ موسیٰ پیپلز پارٹی کے ناقابل شکست راہنما ندیم کائرہ،پیپلز پارٹی کے سابق ارکان اسمبلی  اور پیپلز پارٹی کے راہنما  آصف بھگٹ،اعجاز سماں،تنویر کائرہ بھی پیش پیش تھے۔آخر الزکر،تینوں ارکان اسمبلی اپنے وقت میں پنجاب اسمبلی میں اہم کردار ادا کرتے تھے، فیصل آباد والے  رانا آفتاب احمد خان  کی قیادت میں اس وقت  یہ ارکان اسمبلی بڑے ووکل تھے،یہ بڑی محنت کرتے تھے اسمبلی اور اسمبلی کے باہر بڑی دلیل سے بات کرتے اور حکومت کو ٹف ٹائم دیتے،اس کے بعد رانا آفتاب  پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر بن گئے اور انہوں نے خوب محنت کی، بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحادی حکومت میں تنویر کائیرہ وزیر مالیات  بنے۔

وقت وقت کی بات  ہے آج مسلم لیگ (ن) کی متحرک اور محنتی راہنما  عظمیٰ بخاری جیالی تھیں  اس وقت جوش جنوں زیادہ تھا ،انہوں نے بھی پنجاب  اسمبلی اور  پیپلز پارٹی  میں بہت  کنٹری بیوٹ  کیا، ان کے شوہر  سمیع  اللہ خان بھی  بڑی عمدہ  گفتگو کرتے ،رولز،ریگولیشن  کو سمجھ کر اسمبلی  میں بات کرتے ،یہ  بھی اب  پیپلز پارٹی کی بجائے  مسلم لیگ(ن) کا حصہ ہیں،  رانا آفتاب بھی اب پیپلز پارٹی میں نہیں رہے وہ اب تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ وہ ان تمام ارکان اسمبلی کی قیادت کرتے تھے،وہ سلجھے ہوئے اور سنجیدہ  راہنما تھے ان جیسے لوگوں کی کمی اسمبلیاں محسوس کرتی ہیں۔جیالا ازم ایک دفعہ کسی میں گھس جائے تو نکلتا مشکل سے ہی ہے۔گجرات کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے ندیم افضل چن  نے  وزیر اعظم  عمران خان  کی ترجمانی  سے استعفیٰ دے دیا ہے وہ بھی اصل میں جیالے ہیں اور جیالے کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ قیادت کے سامنے بات کرتے  گھبراتا نہیں،جو درست سمجھتا ہے وہ کہ دیتا ہے۔ندیم چن بھی ہماری سیاست کا  بہت بڑا اثاثہ ہے۔


بات زاہد سلیمی  کی بیٹی کی شادی  کی ہو رہی تھی، اعجاز سماں  پر امید تھے کہ  پی ڈی ایم کا  اتحاد بھی قومی اتحاد اور ماضی کے دوسرے اتحادوں کی طرح فیصلہ کن ہو گا۔آصف بھگٹ بھی پر امید مگر اس کا یہ بھی کہنا تھا  کہ  ان کی جماعت  اور قیادت  جو فیصلہ کرے گی وہی   درست اور انہیں قبول ہو گا۔میری نظر میں اس وقت  پیپلز پارٹی  بڑی سمجھداری سے سیاست کر رہی ہے اور   سیاست  کے سینے میں دل نہیں ہوتا،سیاست میں فیصلے دل کی بجائے دماغ سے کئے جاتے ہیں اور سب سے اہم بات ٹائمنگ ہوتی ہے،جس نے درست وقت میں درست فیصلے کر لئے جیت پھر اسی کی ہوتی ہے اور سیاست میں اقتدار حاصل کرنا ہی  سیاست کی معراج ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو  نے  اس وقت  پی ڈی ایم  کے مستقبل کو  اپنے فیصلوں سے  ڈانواں ڈول  کر دیا ہے ،پی ڈی ایم کا مستقبل اندھیرے میں ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے اس سے  قبل  مرکزی رکن جماعتوں کے تیز تند بیانات میں وقت کیساتھ نرمی اور پھر ایک دوسرے کی طرف سے مذمت اور مدافعت نے اتحاد کی کامیابی پر ابتداء  میں ہی سوالیہ نشان ثبت کر دیا تھا،

مگر حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت نے اتحاد کے تارو پود بکھیرنے کی بنیاد رکھ دی ہے،دکھائی پڑتا ہے کہ ”اور کچھ دم میں ہے یہ اوراق بکھرنے والے“کہا جا رہا ہے کہ  پی ڈی ایم  کے  جلسوں میں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس پر احتجاج کرتے ہوئے مریم نواز نے پی ڈی ایم کے جلسوں کا بائیکاٹ کر دیا  اور وہ حالیہ دنوں میں کے پی کے میں ہونے والے جلسوں میں شریک بھی نہیں ہوئیں، میاں نواز شریف نے اس حوالے سے  مولانا فضل الرحمٰن کو شکوہ اور شکائت آمیز فون کیا،مگر مولانا  کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے، انہوں نے نواز شریف کی شکایات سے آصف  زرداری کو آگاہ کیا اور سفارش کی کہ ان کو جلسوں سے خطاب کرنے دیا جائے مگر زرداری نے انکار کر دیا،اس وقت پی ڈی ایم کے جلسوں کی قیادت خود مولانا  فضل الر حمٰن اکیلے ہی کر رہے ہیں،بلاول بھی کبھی جلسہ میں شرکت اور خطاب کرتے ہیں اور کبھی نہیں،مطلب ان کی بھی دلچسپی اب پی ڈی ایم میں وہ  نہیں رہی،یعنی فضل الرحمٰن حسب توقع اکیلے ہی پرواز کر رہے ہیں اور شائد مستقبل قریب میں بلاول کا بھی ساتھ نہ رہے۔ آخر بلاول بھٹو کے پاس تو سندھ کی حکومت ہے وہ اسے کیوں گنوائیں مولانا کے پاس تو کچھ بھی نہیں اس لئے وہ ہر چیز توڑنے کے لئے بے تاب ہیں۔


      اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں میں نظریاتی بعد تو خفیہ راز نہ تھا مگر یوں اور اس قدر جلد سر پھٹول ہو گی اس کا کسی کو اندازہ نہ تھا،اب جوتیوں میں دال بٹنے کا انتظار ہے اور مولانا عنقریب سب سے شکوہ کرتے دکھائی دیں گے کہ سیاسی بھنور میں ان کو دھکیل کر سب نے چپ سادھ لی،استعفوں کا ڈھول بھی پھٹ چکا،لانگ مارچ کی دھمکی بھی قصہ ماضی ہوئی،دھرنے کی تو شائد نوبت ہی نہ آئے مگر مولانا نے جوش جذبات میں لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد سے پنڈی کی طرف موڑنے کا اشارہ دیدیا جس کے جواب میں پنڈی والوں نے کہا اس کا کوئی جواز تو نہیں مگر لانگ مارچ والے آئیں چائے پانی پلائیں گے،چائے دودھ پتی ہو گی کہ کڑک، اس بارے میں  فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن اس کا زیادہ انحصار دھرنے کے شرکاء کے روئیے پر ہے،تاہم لگتا یہی ہے کہ اب نہ لانگ مارچ ہو گا نہ دھرنا،اور ہواء  تو شیخ رشید استقبال کی تیاری کر چکے ہیں۔
موجودہ حکومتی  صورتحال بھی  کچھ اتنی قابل تعریف نہیں،اگرچہ حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا مگر حکومت کی اپنی کار کردگی ایسی ہے جس کے ہوتے اپوزیشن کو اتنی محنت کرنے کی ضرورت نہیں،حکومت خود ہی اپنے ملبے تلے دبی جا رہی ہے،اگر چہ عالمی بحران بھی ہے،کووڈ19کا بھی آسیب ہے اور معیشت کا ڈانواں ڈول ہونا بھی ایک مشکل ہے،مگر غریب شہری آج جن مشکلات کا شکار ہیں۔  

مزید :

رائے -کالم -