کامیابی کے ثمرات کو ترستی قوم 

کامیابی کے ثمرات کو ترستی قوم 
کامیابی کے ثمرات کو ترستی قوم 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کہنے کو ہم ایک اسلامی جمہوری مملکت کے باسی ہیں مگر ہم اپنے اعمال اور رویوں سے اسلامی تقاضوں کو پورا کرتے نظر آتے ہیں نہ جمہوری اقدار کی پاسداری کہیں دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورتحال ہر سطح پر پائی جا رہی ہے۔ افراد میں، گروہوں میں، جماعتوں میں، اونچے طبقات سے لے کر نچلے طبقے تک ہر جگہ ذات آگے اصول پیچھے ہے۔ جمہوریت کی بنیاد آزادانہ حق رائے دہی ہے۔ یہ حق تو ہمیں کئی بار ملتا رہتا ہے مگر ہم اپنے رویوں سے اس کا جو حشر کرتے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ہر قیمت پر جیت کا چلن اصولوں، ضابطوں کو ہی تہس نہس نہیں کر تا جمہوریت کا چہرہ بھی داغدار کر دیتا ہے۔ ہم ووٹ کا حق مانگتے ہیں، مل جائے تو استعمال بھی کرتے ہیں مگر نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ ہاں البتہ اپنے حق میں آنے والا نتیجہ ہی ہمیں قابل قبول ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں الیکشن میں ایک امیدوار جیت جاتا ہے باقیوں کے ساتھ دھاندلی ہو جاتی ہے۔ ہارتا کوئی بھی نہیں۔ الیکشن سے پہلے ہم دھونس، دباؤ، لالچ کے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس کے باوجود ناکام رہیں تو سارا زور جیتنے والے امیدوار کو ناکام کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے۔ الیکشن کے اگلے دن سے ہم دھاندلی کا الزام لگا کر جیتنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دیتے ہیں۔ جیت کر حکومت بنانے والوں کے خلاف پارلیمان کے اندر کوششیں جمہوری ممالک میں نظر آتی ہیں اور جاپان و اسرائیل سمیت کئی اور ممالک میں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔

وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ان ممالک اور ہمارے مابین ایک فرق بنیادی نوعیت کا ہے۔ وہاں حکومتیں جماعتوں کی ہوتی ہیں ہمارے ہاں افراد یا شخصیات کی ہوتی ہیں۔ پارٹیاں پیچھے اور شخصیات آگے ہوتی ہیں۔ یہاں شخصیت پرستی ہے اصول پرستی نہیں، یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے بغیر پیپلزپارٹی، نوازشریف کے بغیر مسلم لیگ اور عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لئے ٹارگٹ بھی شخصیات کو کیا جاتا ہے۔ انہیں متنازع بنایا جاتا ہے۔ یوں ہم ہرا بھرنے والے ہیرو کو کردار کشی کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور ہم ہیرو مار مار کر زیرو اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ ہجوم رہ جاتا ہے رہنما ختم ہو جاتے ہیں۔ قوم بننے کا مرحلہ آکر نہیں دے رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں کامیاب ہونے والے نظاموں میں سے کوئی سیاسی نظام ہمارے ہاں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔ صدارتی، پارلیمانی، جمہوری، نیم جمہوری، بادشاہت، آئینی بادشاہت، آمریت، فوجی آمریت، نیم آمریت، جماعتی آمریت، بالواسطہ، بلا واسطہ رائے دہی، سبھی نظام اپنی اپنی جگہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر ہم تیسری دنیا کے باسی عجیب ہیں۔ خصوصاً وطن عزیز میں دنیا کا سب سے کامیاب نظام آزمالیں ہمارے رویوں کے نیچے دم گھٹ کر ناکامی کی موت مر جائے گا۔ ہم صدارتی نظام آزما چکے، فوجی آمریت دیکھ چکے، بنیادی جمہوریت کے بالواسطہ نظام کو موقع دے چکے۔ اب تقریباً نصف صدی سے پارلیمانی نظام لاگو کئے ہوئے ہیں مگر ملک و قوم کامیابیوں کے ثمرات کو ترس رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو وہی سپورٹس مین شپ کی کمی ہے۔

جس نے بے صبری کو جنم دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سپورٹس مین (کھلاڑی) نے بھی سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ نہ کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد تحریک شروع کر دی اور ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا 2014ء میں دے ڈالا۔ اب جیسی کرنی ویسی بھرنی ہو رہی ہے۔ خود کھلاڑی کو حکومت ملی تو آج ٹوٹی کہ کل ٹوٹی کا ماحول پیدا کر دیا گیا۔ صرف نوازشریف والی اپوزیشن نے دانستہ حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے دی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو پوری طرح ایکسپوز ہونے کا موقع دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے انتخاب میں نوازلیگ دو تہائی اکثریت لے گئی۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی مہنگائی اور بیروزگاری کے حوالے سے اتنی خراب نظر آ رہی ہے کہ آئندہ انتخابات اس کے لئے مشکل ہوں گے مگر اپوزیشن آئے روز اس کے خاتمے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے تئیں اسے ”سیاسی شہید“ بنانے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ یہ غیر سیاسی اور خود اپوزیشن کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ موجودہ کارکردگی کے ساتھ اگر مدت پوری کر کے تحریک انصاف انتخابی میدان میں اترتی ہے تو اسے بہت مشکل حالات کا سامنا ہوگا۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ اپوزیشن نعروں اور بڑھکوں سے حکومت مخالف ماحول تو بنا دیتی ہے۔ مگر گنتی میں ہار جاتی ہے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہو یا منی بجٹ کی منظوری کا معاملہ اپوزیشن کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر تو یہ لطیفہ بھی ہوا کہ جتنے لوگوں نے اس تحریک پر دستخط کئے تھے اتنے لوگوں نے ووٹ نہ دیا۔ 14 لوگ مہر کہیں اور لگا بیٹھے۔ اس کو ٹیلی فون کال کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ اب کیا ہوا؟ ضمنی بجٹ یا منی بجٹ 18 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی کوئی ترمیم بھی منظور نہ ہوئی۔

اب دل کے بہلانے کو اپوزیشن کہہ سکتی ہے (بلکہ کہہ رہی ہے) کہ حکومت قائم رکھنے کے لئے قومی اسمبلی میں 172 ووٹوں کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ بجٹ پر رائے شماری میں حکومت کو چار ووٹ کم ملے ہیں۔ اس طرح وہ ایوان کا اعتماد کھو بیٹھی ہے۔ سبھی کو پتہ ہے کہ حکومتی اتحاد کے درجن بھر ارکان غیر حاضر تھے۔ اگر اپوزیشن نے حالیہ گنتی کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد دلانے کی غلطی کی تو ان غیر حاضر ارکان کی حاضری یقینی بنا کر گنتی پھر پوری کر لی جائے گی۔ اپوزیشن اپنی گنتی پر دھیان دے۔ بجٹ پر اسے 150 ووٹ ملے۔ اس کے بھی بارہ ارکان غیر حاضر تھے۔ سارے بھی آ جائیں تو 162 بنتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے لئے 172 سے زائد ووٹ چاہئیں۔ اس طرح کی حرکتیں لہو گرم رکھنے کا بہانہ تو ہو سکتی ہیں حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں البتہ حکمرانوں کو یہ کہنے کا موقعہ ضرور دے دیں گی کہ ہمیں کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو ہم عوام کے تمام دلدر دور کر دیتے۔ اس کامیابی کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید کے لہجے میں جو گھن گرج آئی ہے وہ بلا وجہ نہیں۔ اگر اپوزیشن اسی طرح کی کچی گولیاں کھیلتی رہی تو عمران خان کے وارے نیارے ہیں۔ ویسے اپوزیشن کے فاضل زعماء سے پوچھا تو جا سکتا ہے کہ ”ماڑی سی تے لڑی کیوں سی؟“

مزید :

رائے -کالم -