اور ماڈل ایان علی کی ضمانت ہو ہی گئی!
14جولائی کو لاہور ہائی کورٹ سے سپر ماڈل ایان علی کی چار ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ہو گئی۔ ماڈل ایان علی پر مبینہ طور پر5لاکھ ڈالر مُلک سے سمگل کرنے کا الزام تھا۔ ایان علی کی درخواست ضمانت کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں محکمہ کسٹم ملزمہ ایان علی کے خلاف کرنسی سمگل کرنے کا کیس چونکہ ثابت نہیں کر سکا،اس لئے ملزمہ کو ضمانت پر فوری طور پر رہا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کی طرف سے جو وکلا پیش ہوئے انہوں نے ملزمہ کی ضمانت کی مخالفت کی،کیونکہ ملزمہ سے راولپنڈی ایئر پورٹ پر دبئی جانے کی تیاری کے وقت، 5لاکھ امریکی ڈالر برآمد کئے گئے، جو ابھی تک کسٹمز حکام کی تحویل میں ہیں۔ قانون کے مطابق کوئی بھی پاکستانی جب بیرون ملک سفر کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ 10ہزار امریکی ڈالر سے زائد نہیں لے جا سکتا،یہ رقم10ہزار ڈالر سے زائد ہے اس لئے یہ سمگلنگ کا کیس بنتا ہے، لیکن ملزمہ کے وکیل نے جج صاحبان کو باور کروایا کہ یہ رقم سمگلنگ کے لئے ہر گز نہیں تھی، بلکہ اس کی کلائنٹ نے یہ رقم اپنے بھائی کو ایئر پورٹ پر دینی تھی ۔
جج صاحبان نے دونوں پارٹیوں کے بیانات سننے کے بعد فیصلہ فرمایا کہ یہ بادی النظر میں سمگلنگ کا کیس نہیں ہے، اس لئے ملزمہ کی ضمانت منظور کی جاتی ہے اور ملزمہ کو رہا کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل قارئین کو شاید یاد ہو کہ جس کسٹم انسپکٹر نے ملزمہ ایان علی کو 5لاکھ امریکی ڈالروں سمیت راولپنڈی ایئر پورٹ پر پکڑا تھا اُسے اس کے گھر کے اندر ہی کسی نامعلوم شخص نے گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا تھا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور نہ کوئی گواہی دینے والا ہو اور باقی کسٹم والوں کو عبرت ہوکہ کسی بااثر شخص کے لوگوں کو ایئر پورٹ وغیرہ پر تنگ نہ کیا جائے۔کسٹم انسپکٹر کو کیسے جرأت ہوئی کہ وہ مُلک کی سپر ماڈل کو ایئر پورٹ پر رنگے ہاتھوں پکڑے۔ کسٹم حکام کو کس نے قانون سکھایا، وہ کس قانون کی بات کر رہے ہیں،مُلک عزیز میں تو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا قانون ہے۔
کیا کراچی میں1985ء سے یہی قانون نہیں ہے اس مُلک میں تو ملک توڑنے والوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی، لیکن کھیت سے خربوزے توڑنے والے کو قانون کے رکھوالوں نے ضرور سزا دی ہوگی۔ جب مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنا تو کسی کو کوئی پوچھ گچھ ہوئی ؟ آج ملک میں لاقانونیت ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی خاص طورپر کراچی میں۔ کیا یہ سارا کچھ ایک دن ایک سال یا ایک دھائی کی کہانی ہے، نہیں جناب یہ کھیل تین دہائی پرانا ہے اور اس کھیل کو مقتدر قوتوں نے چاہے وہ جمہورت نما تھیں یا مارشل لا نما تھیں جان بوجھ کر بادی النظر میں Avoidکیا کہوں کہ اگر بھتہ خوروں ٹارگٹ کلر، قبضہ مافیہ پر ہاتھ ڈالتے تھے تو اقتدار ڈانوں ڈول ہوتا تھا ۔ کاش ہماری نام نہاد سیاسی قیادتیں اور جمہوری مارشل لائی قیادتیں اقتدار کی لت سے زیادہ اس مُلک اور قوم کو اہمیت دیتیں تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ آج مُلک میں نہ بجلی ہے نہ پانی، نہ حکومت نام کی کوئی چیز، جو حالات کراچی میں ہیں وہ کسی سے اُوجھل نہیں۔شاید انہی حکمرانوں کے لئے ہی علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا:
ہوائیں ان کی فضائیں ان کی سمندر ان کے جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے کیوں کر، بھنور ہے تقدیر کا بہانا
اگر بادی النظر میں ایان علی بے گناہ تھی تو اس بے چاری کو کیوں 4ماہ تک اڈیالہ جیل میں رکھا گیا۔ کیوں عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کیا اگر کچھ ثابت ہی نہیں کرنا۔ اس مُلک میں آج تک کیوں کچھ بھی ثابت نہیں ہوا، خرابی کہاں پر ہے کیوں زرعی مُلک میں 60فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور حکمران طبقات کی ملکی اور غیر ملکی جاگیروں میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی ہو رہی ہے اور ان طبقات کی شاہانہ زندگیوں کا راز کیوں غریب عوام نہیں جان سکے، کیوں اس مُلک میں Living Beyond Means، یعنی وسائل سے زائد شاہانہ اسودگی والا قانون نافذ العمل نہیں ہو سکا، اس لئے کہ شائد سارے کرتا دھرتا اس حمام میں ننگ دھڑنگ ہیں۔