پاکستان سے محبت کرو :پاکستان کی تعمیر کرو

پاکستان سے محبت کرو :پاکستان کی تعمیر کرو
 پاکستان سے محبت کرو :پاکستان کی تعمیر کرو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ روز ہمدرد مجلسِ شوریٰ کا ایک انتہائی اہم اجلاس منعقد ہوا ، جو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ اس کا موضوع موجودہ حالا ت کے تناظر میں بے حد اہم تھا ۔۔۔ " آئندہ انتخابات کی تیاریاں ، ضابطہ اخلاق کی پابندی اور انتخابی منشور پر عمل درآمد کی نگرانی " اس تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اظہارِ خیال کیا ، جن میں پیپلز پارٹی کے نوید چودھری جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ ، بریگیڈئر (ر) حامد سعید اختر، میجر(ر)صدیق ریحان، متحرمہ خالدہ جمیل چودھری ، محترمہ پروین خان ، پروفیسر خالد محمود ،عطاء جمیل بھٹی ، طفیل اختر اور ادارہ قومی تشخص کے سیکرٹری شہریار اصغر مرزا بھی شامل تھے سپیکر کے فرائض محترمہ بشریٰ رحمن صاحبہ نے اداکئے ۔

اگر چہ کسی بھی متعلقہ ادارے کی جانب سے آئندہ انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن گزشتہ چند ماہ سے سیاسی جماعتوں اوران کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید میں بہت جو تندی وتیزی آچکی ہے ، وہ واضح طورپر اشارہ ہے اس بات کا کہ یہ سب کچھ آئندہ انتخابی مہم کا حصہ ہے ۔ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما تو باقاعدہ اعلان فرماچکے ہیں کہ کارکنان انتخابات کی تیاری کا عمل شروع کردیں ۔وطنِ عزیز پاکستان ان دنوں جس بیرونی اور اندرونی خلفشار سے دو چار ہے ، وہ اس بات کا متقا ضی ہے کہ ہر پاکستانی شہری اور ہر پاکستانی جماعت یا ادارہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کے اس قول کو اپنے عمل کا عنوان جلی بنالے: " پاکستان سے محبت کرو ، پاکستان کی تعمیر کرو " ۔ پاکستان سے محبت اور اس کی تعمیر کا دعویٰ تو ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں کیا جاتاہے لیکن عمل اس کے بالکل بر عکس نظر آتاہے ۔قومی یک جہتی تعمیر و ترقی اور جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ آئندہ انتخابی اصلا حات میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کے لئے ضابطہ اخلاق اور اعلان کر دہ انتخابی منشور پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے کوئی ایسا طاقتور ادارہ وجود میں لا یا جائے جو عام پاکستانی کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو نہ صرف حدود و قیود کا پابند کرے بلکہ آئندہ پانچ سال تک انتخابی منشور میں اعلا ن کردہ وعدوں پر عمل درآمد کی نگرانی کا فریضہ بھی ادا کر سکے ۔خلوصِ نیت اور سچا قومی جذبہ اگر موجود ہوتو بے شمار مسائل کی شکارقوم کو حیران کن بلندیوں اور کامیابیوں کو چھوتا ہوا دیکھا گیا ہے ۔ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے ۔بس حب الوطنی کے آئینہ بردار اداروں کی ضرورت ہے ۔


اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے سپریم کورٹ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ پربھی تبادلہ خیال کیا ۔ایک سیاسی جماعت کے احتساب کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کوئی ایسا طریقہ یا قانون بنائے کہ جے آئی ٹی کی طرز پر مستقل احتسابی کمیشن بنایا جا سکے، جو گزشتہ ستر سال سے ملک پر حکمرانی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو اس عمل سے گزارے ۔ایک سیاسی جماعت کی کردار کشی نے کئی اہم سوالا ت کو جنم دیا ہے کہ پاکستان جو ایک سونے کی کان تھا ،جس جماعت نے بھی اقتدار میں آکر لوٹ مار کی ہے اسے منظر عام پر لایا جائے ۔آئندہ انتخابات میں انہی افراد کو انتخاب میں حصہ لینے دیا جائے تو جے آئی ٹی پروسیس سے گزر کر اہلیت کاسر ٹیفکیٹ حاصل کرلیں ۔صرف اسی طریقے سے ملک پر ایک فیصد مسلط کرپٹ عناصر سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے ، ورنہ ننانوے فیصد رعایا غریب سے غریب تر ہوتی جائے گی اور ایک فیصد حکمران طبقہ موج مستی میں مصروف رہے گا ۔اسی ایک فیصد طبقے کی غلط اور غیر منصفانہ کاروائیوں کی بدولت ننانوے فیصد عوام ہر ماہ جے آئی ٹی کے مرحلے سے گزرتے ہیں ، جب یوٹیلٹی بل اداکرنے کا وقت آتا ہے ۔صرف ایک فیصد اشرافیہ اس اذیت سے آزاد ہے ۔باقی تمام پورا مہینہ یہ سزا کاٹتے رہتے ہیں۔


مقررین نے مزید کہا کہ اداروں پر تنقید سے گریز کیا جائے ، ترجیحات کا تعین کیا جائے بلا وجہ پروجیکٹ نہ بنائے جائیں، قومی مفادات کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے ، سینٹ ، عدلیہ ، اپوزیشن پر مبنی ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے جو منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنائے انتخابات میں حصہ لینے والے نمائندگان کا آرٹیکل 63 ،62 کے تحت بغور جائزہ لے کر کرپٹ نمائندگان پر تاحیات پابندی عائد کی جائے ، صادق اور امین حضرات کو اوپرلا یا جائے ۔انتخابی مہم اور میڈیا ٹاک شو کے لئے بھی ایک ضابطہ ء اخلا ق قائم کیا جائے ،الیکشن کمشن کو مضبوط اور طاقتور بنایا جائے ۔انتخابات کرانے کی ذمہ داریاں پولیس کی بجائے رینجرزکو سونپی جائیں ،صرف تعلیم یافتہ دیانتدار ، با کردار اور اقتدار کی خواہش نہ رکھنے والوں کو اسمبلیوں کے ٹکٹ دیئے جائیں۔ دولت کی طاقت کے زور پر اقتدار میں آنے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے ۔اس طرح کی جو پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آئے گی وہ یقیناًپاکستان کو ترقی کی اس بلندی پر لے جا ئے گی،جو ہمیں ترکی ، ملا ئشیا اور ایران میں نظر آتی ہے ۔ان ممالک کے سربراہوں نے اپنی ذاتی زندگی کی بجائے ملکی ترقی اور خوشحالی پر توجہ دی ہے ، اور عوام کو خوشحالی جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو ان تینوں ممالک کی حکومتوں کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے ، جہاں صرف سیاسی کارکن ہی نہیں،س عوام بھی حکمرانوں سے محبت کرتے ہیں ، کیونکہ ان حکمرانوں نے اپنی ذاتی زندگیوں کو بھی اپنے عوام کی طرح سادہ ہی رکھا ہے ۔جنہوں نے کوئی سرمایہ بنایا ہی نہیں ، جسے ملک میں رکھنے یا بیرون ملک لے جانے کا سوال پیدا ہوتا ہو۔ایران کے سابق صدر احمد ی نژاد ایک سکول میں بطور ٹیچر ملازمت کررہے ہیں ۔ملائشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد بطور میڈیکل ڈاکٹر اپنا کلینک چلارہے ہیں ۔

مزید :

کالم -