کاش کھر صاحب جمشید دستی کو نیا بھٹو کہتے!

کاش کھر صاحب جمشید دستی کو نیا بھٹو کہتے!
 کاش کھر صاحب جمشید دستی کو نیا بھٹو کہتے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس روز شیخ رشید احمد ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ اس وقت ملک میں سب سے سینئر سیاستدان ہیں، تو اسی دن غلام مصطفیٰ کھر نے یہ بیان دیا کہ قوم کو عمران خان کی صورت میں نیا بھٹو مل گیا ہے۔ اتفاق سے غلام مصطفیٰ کھر اب تحریک انصاف میں شامل ہیں، جس سے شیخ رشید احمد اتحاد کئے ہوئے ہیں، یوں انہیں اس بات کا جواب تو مل ہی گیا ہوگا کہ صرف وہی سینئر سیاستدان نہیں، بلکہ اور بھی بہت سی نابغۂ روز گار شخصیات میدانِ سیاست میں موجود ہیں اور ان سے زیادہ سینئر بھی ہیں۔ عمران خان کی تعریف تو شیخ رشید احمد بھی بہت کرتے ہیں، لیکن جو تعریف غلام مصطفیٰ کھر نے کی ہے، اس طرح کی دوررس تعریف شیخ صاحب کے ذہن میں نہیں آ سکی۔۔۔ اصل میں غلام مصطفی کھر ابھی تک بھٹو کی شخصیت کے سحر سے نہیں نکل سکے۔ جس شخص کی سیاست ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے شروع ہو کر اقتدار کے خاتمے پر ختم ہو چکی ہو، اسے بھلا بھٹو کیسے بھول سکتا ہے۔ اسے تو ہر اچھے عاشق کی طرح ہر چہرے میں اپنے محبوب کا چہرہ ہی نظر آئے گا۔ پیپلزپارٹی ابھی تک ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگا کر بھٹو کو زندہ رکھنے کی کوشش کئے ہوئے ہے، حالانکہ آصف علی زرداری نے بھٹو کا نظریہ ہی نہیں، اس کی پارٹی کو بھی دیوار سے لگا دیا ہے۔ اپنی زندگی میں میں نے دو سیاستدان ایسے دیکھے ہیں، جو اپنے آئیڈیل سے باہر نہیں نکلے ایک غلام مصطفیٰ کھر جن کا آئیڈیل ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور دوسرے جاوید ہاشمی جن کے پسندیدہ لیڈر نوازشریف ہیں۔ آندھی آئے یا طوفان یہ دونوں گھما پھرا کر بات کو اپنے آئیڈیل تک لے ہی آتے ہیں۔


شاید اسی عادت سے مجبور ہو کر غلام مصطفی کھر نے عمران خان کو نیا بھٹو قرار دیا ہے۔ اب پتہ نہیں عمران خان اس مماثلت سے خوش ہوئے ہوں گے یا نہیں، کیونکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں عمران خان، یعنی تبدیلی کے نشان ہی سے یاد کریں، تاہم پیپلزپارٹی والوں کو اس پر گہرے صدمے سے گزرنا پڑا ہوگا۔ آصف علی زرداری تو عمران خان کو صرف کھلاڑی سمجھتے ہیں، وہ تو انہیں سیاستدان ماننے کو تیار نہیں، چہ جائیکہ بھٹو مان لیں۔ پاکستان کا ہر سیاستدان لاشعوری طور پر بھٹو ضرور بننا چاہتا ہے، لیکن بھٹو بننے کے لئے جو لوازمات درکار ہیں، وہ کسی بھی سیاستدان کے پاس نہیں۔ شہباز شریف بھی جوشیلی تقریروں کے ذریعے اور مائیک کو ہاتھ مار کر بھٹو کی نقل کرتے ہیں۔ مگر بھٹو بن نہیں سکے۔ بھٹو کوئی جیمز بانڈ زیرو زیرو سیون والی شخصیت کی وجہ سے عوام میں مقبول نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کی مقبولیت کا اصل سبب ان کا نظریہ تھا، انہوں نے پہلی بار ایک عام آدمی مزدور، کسان اور محنت کش کو حقوق کا شعور دیا۔ انہیں زبان دی اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ترغیب بھی دی، پھر روٹی، کپڑے اور مکان کا وہ نعرہ دیا۔ جو آج بھی کروڑوں غریب پاکستانیوں کا دکھ ہے۔ سب مانتے ہیں ہیں کہ بھٹو کا نظریہ غلط نہیں تھا، مگر وہ اسے عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ وہ مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے، جن جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف غریب عوام کو حقوق دلانے کا دعویٰ کر کے وہ اقتدار میں آئے تھے، انہی کے چنگل میں پھنس گئے، مگر اس کے باوجود عوام انہیں بھولے نہیں، کیونکہ آج تک لوگوں کو احساس ہے کہ بھٹو ایک مخلص لیڈر تھا، بس اسے سازشیوں نے گھیر گھار کر عوام کے دور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہر سیاسی لیڈر بھٹو بننے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن بھٹو بن نہیں سکا یا دوسرے لفظوں میں عوام نے کسی لیڈر کو بھٹو کا درجہ نہیں دیا۔


یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بھٹو کی ناکامیوں میں غلام مصطفیٰ کھر جیسے کرداروں کا ہی ہاتھ تھا۔ گورنر ہاؤس لاہور کی شرمناک کہانیاں بھٹو دور کی بھیانک یاد ہیں۔ کھر صاحب اپنے آبائی حلقے کے عوام کو بھی یہ احساس نہیں دلا سکے کہ وہ ان کے لیڈر نہیں، خادم ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے علاقے میں وڈیرا ازم کی بد ترین مثالیں قائم کیں۔ وہ اور ان کے بچے غریب مزارعوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بنتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اپنے حلقہ انتخاب میں بدترین شکست کا سامنا رہا۔ سو ایسے میں اگر غلام مصطفیٰ کھر عمران خان کی شکل میں ایک نیا بھٹو تلاش کر بیٹھے ہیں تو یہ بات خود عمران خان کے لئے خطرے سے خالی نہیں، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کھر صاحب کے ذہن میں مستقبل کا نقشہ یہ ہو کہ بھٹو کی طرح وہ عمران خان کو بھی شیشے میں اُتار لیں گے اور وہ سب کچھ کر گزریں گے جو انہوں نے بھٹو کے زمانے میں کیا۔ عمران خان کو عمران خان ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے، انہیں اگر کھلاڑی کا طعنہ دیا جاتا ہے تو یہ ان کے حق میں جاتا ہے، کیونکہ اب تک انہوں نے جو سیاسی اننگ کھیلی ہے، وہ انتہائی شاندار ہے۔ وہ پارٹی کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں، ان کے پاس سٹریٹ پاور ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور انہوں نے احتساب کا نعرہ لگا کر ملک کے وزیر اعظم کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں بھٹو جیسی سیاسی بصیرت نہیں۔ ان کے بہت سے فیصلے خود ان کے لئے مشکلات کا باعث بنے۔ خیبرپختونخوا میں احتساب کا نظام بری طرح ناکام ہو گیا۔ پارٹی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تو اس کے اثرات پر توجہ نہیں دی، جو بالآخر پارٹی کے اندر ایک بڑے انتشار کی بنیاد بن گیا، پھر دوسری جماعتوں سے آنے والوں کو دھڑا دھڑ پارٹی میں شامل کرکے اس انفرادیت کو نقصان پہنچایا جو تحریکِ انصاف کو حاصل تھی۔ جب ایسے لوگ بھی شامل ہوئے جو کرپشن کے الزامات کی زد میں تھے تو تنقید کرنے والوں کے ہاتھ میں ایک بڑا ہتھیار آ گیا۔


سو وہ باتیں جن کا شکار ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آنے کے بعد ہوئے تھے، عمران خان پہلے ہی ہو چکے ہیں، تاہم اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ملک کے ایک مقبول رہنما ہیں، لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی لغزشوں سے صرف نظر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اگر غلام مصطفیٰ کھر جیسے بابے سیاستدان عمران خان کو ایسے القابات سے نوازیں گے جو ان کی شخصیت سے بالکل لگا نہیں کھاتے اور وہ ایسے سیاستدانوں کو عوام کے سامنے تبدیلی کی علامت بنا کر پیش کریں گے تو ان کا اپنا سارا عوامی تشخص اور تبدیلی کا تاج محل زمین بوس ہو جائے گا۔ غلام مصطفیٰ کھر دوسرا بھٹو عمران خان میں تلاش کر رہے ہیں، حالانکہ بھٹو کی اصل تصویر تو خود ان کے اپنے علاقے میں گھوم پھر رہی ہے۔ میری مراد جمشید دستی سے ہے۔ جو عوامی سیاست کی اسی ڈگر پر چل رہا ہے، جس پر بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ آج مظفر گڑھ میں وڈیروں کی دال نہیں گل رہی، کیونکہ جمشید دستی نے عوام کے درمیان کھڑے ہو کر ان کے حقوق کا جو نعرہ لگایا ہے اور جس طرح خود کو غریب لوگوں کی دسترس میں دے دیا ہے، اس کا توڑ علاقے کے وڈیروں کے پاس ہے ہی نہیں، خود کھر صاحب کے بھائی جو ایم این اے ہیں، پچھلے چار برسوں میں اپنے حلقے کے عوام کو شکل تک نہیں دکھا سکے، ان سے ملنا تو بڑی بات ہے۔ غلام مصطفیٰ کھر اگر ذرا بھی انصاف سے کام لیتے تو ببانگ دہل کہتے کہ مظفر گڑھ کو جمشید دستی کی شکل میں دوسرا بھٹو مل گیا ہے۔۔۔ مگر ایسا وہ کیونکر کہتے؟ جمشید دستی سے انہیں کیا لینا دینا، انہوں نے تو اس وقت بھی جمشید دستی کی حمایت نہیں کی، جب وہ جیل میں صعوبتیں برداشت کر رہا تھا۔ البتہ عمران خان کو نیا بھٹو کہہ کر وہ خبروں کی زینت بھی بن گئے اور اپنے تئیں انہوں نے عمران خان کی نظروں میں اپنا قد بھی نمایاں کر لیا، حالانکہ جو کپتان کو جانتے ہیں،ا نہیں علم ہے کہ وہ ایسی باتوں سے متاثر ہونے والے نہیں۔ کھر صاحب شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوششوں سے وہ عمران خان کے پنج پیاروں میں شامل ہو جائیں گے تو ان کی خوش فہمی ہے، عمران خان ایک عملی آدمی ہیں، ان کے پنج پیاروں میں جو آج کل شامل ہیں، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو کھر صاحب کی طرح صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہو، ان کے پیاروں میں جہانگیر ترین سے لے کر علیم خان تک وہ لوگ شامل ہیں جو عملی طور پر خرچ کرتے ہیں اور پارٹی کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے آئے ہیں۔

مزید :

کالم -