یوگی ادتیا ناتھ: انڈیا کا اگلا پردھان منتری!

یوگی ادتیا ناتھ: انڈیا کا اگلا پردھان منتری!
 یوگی ادتیا ناتھ: انڈیا کا اگلا پردھان منتری!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب کسی چینل پر عمران خان کا ایک انٹرویو سن (اور دیکھ) رہا تھا۔ اینکر نے کئی اہم سوال کئے جن میں سول ملٹری روابط، امریکہ سے برتاؤ، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے سب سے پہلے کرنے والے اقدامات اور ہمسایوں سے تعلقات وغیرہ جیسے سوال شامل تھے۔ مجھے سب سے زیادہ دلچسپی انڈوپاک روابط سے تھی۔ میرا خیال تھا عمران خان اس ضمن میں ایک متوازن اپروچ رکھتے ہوں گے لیکن جب انہوں نے انڈین وزیراعظم نریندرمودی کی ’’قصیدہ گوئی‘‘ میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا تو مجھے حیرت اور خوشی دونوں کا سامنا ہوا۔ عمران خان نے پاکستانی عوامی آرزوؤں کو زبان دیتے ہوئے کہا کہ مودی ایک سخت متعصب سیاسی لیڈر ہے اور خاص طور سے مسلمانوں کے بارے میں مودی کا متعصبانہ رویہ شرمناک ہے۔


پاکستان اور بھارت اپنا جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ دونوں کو اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو کر رہنے کی مجبوری ہے تاہم ان روابط کا انسلاک 180ڈگری مختلف بھی ہو سکتا ہے۔نون لیگ کے بھارت سے تعلقات کے عقیدے (ڈاکٹرین) کی اساس یہ رہی ہے کہ انڈوپاک کی لوکیشن اچھی ہمسائیگی کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن جب سے مودی برسراقتدار آئے ہیں نون لیگ کا یہ ڈاکٹرین پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان نہیں بن سکا۔ انڈیا نے مودی کی قیادت میں جس شدید پاکستان دشمنی اور تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اس کے آثار ہر طرف ہویدا ہیں۔ مودی نے نہ صرف کشمیر ی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے بلکہ پورے انڈیا کی مسلم آبادی اس انتہا پسند ہندوتا کے نشانے پر ہے جو مودی کی اپنی جماعت (BJP) کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ اور تو اور بھارت نے بین الاقوامی برادری میں بھی پاکستان مخالف تحریک کو ’’دہشت گردی‘‘ کی آڑ میں پاکستان کو کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزشت نہیں کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی نے اگلے روز برملا کہا ہے کہ انڈیا، افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ افغانستان کی طرف سے اس کا فوری جواب آیا ہے اور اس جواب کے منہ میں بھی انڈین وزیراعظم کی زبان ہے۔


پاکستان آرمی نے آج سے خیبرایجنسی میں تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا ہے جس میں پاکستان ایک ڈویژن پلس کی فورس استعمال کررہا ہے۔ اس آپریشن پر ایک تفصیلی کالم کی ضرورت ہے تاہم ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ دہشت گردوں کی آمد و رفت کے اہم راستے کون سے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کا بارڈر سینکڑوں نہیں ہزاروں کلومیٹروں تک پھیلا ہوا ہے۔لیکن امریکہ، انڈیا اور افغانستان مل کر اس پورس بارڈر کو پاکستان کے اندر عدم استحکام پیداکرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کا آج سے ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اور آج ہی پاک افغان سرحد پر پاک آرمی کا یہ بڑا آپریشن بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ پاناما اور اس آپریشن کا بیک وقت آغاز خالی از علت نہیں لگتا۔ پاکستان آرمی کو معلوم ہے کہ اس کے دشمن پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بیٹھ کر کس کس فکر و عمل پر کام کر رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا پچھلے دنوں امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی سب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین پاکستان ’’تشریف ‘‘ لائے تھے اور ان کے ہمراہ چار افراد پر مشتمل ایک امریکی طائفہ بھی تھا۔ ان کو مغربی سرحد کا دورہ کروایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ پاکستان افغانستان کی طرف سے کن کن ’’مہربانوں‘‘ کی زد پر ہے۔ لیکن جان مکین نے کابل جا کر وہی پرانا راگ دہرایا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو روکنے کا بندوبست کرے۔ تاہم کسی امریکی سینیٹر کے کہنے سے پاکستان اپنے سٹرٹیجک مفادات کا سودا تو نہیں کر سکتا۔۔۔ وادی ء راجگال پاک افغان سرحد پر افغان صوبے ننگر ہار کے بالمقابل واقع ہماری ایک وادی ہے اور ان دہشت گردوں کا گڑھ ہے جو ننگر ہار سے اٹھتے ہیں اور اس وادی کی مشکل ترین جغرافیائی لوکیشنوں کا سہارا لے کر پاکستان کے اندر فساد پھیلاتے رہتے ہیں۔


قارئین کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ امریکہ کا لگایا ہوا وہ پودا جو داعش کے نام سے تن آور درخت بن چکا تھا شام اور عراق میں خزاؤں کی زد میں ہے۔ حال ہی میں عراقی فورسز نے موصل سے داعش (ISIS) کو شکست دے کر نکال دیا ہے۔ یہ داستان بڑی دلدوز ہے لیکن داعش کے بہت سے خریدار اور بھی ہیں اور ان کے ٹھکانے اب پاک افغان سرحد پر یا تو صوبہ ننگر ہار میں بن چکے ہیں یا شمالی وزیرستان میں دتہ خیل اور شوال کی وادیوں کے مقابل افغان صوبے خوست میں قائم کر دیئے گئے ہیں۔۔۔۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ بعض علاقائی ممالک ، مغربی ملکوں سے مِل کر ایک تو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے سی پیک (CPEC) کو ناکام بنانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کا موجودہ دور آج ایک نازک اور اہم ترین موڑ پر پہنچ چکا ہے۔۔۔’’اب یا کبھی نہیں ‘‘ والا انگریزی محاورہ آج کے پاکستان پر عین مین صادق آتا ہے!۔۔۔


یہی وجہ ہے کہ پاکستان آرمی، پاک فضائیہ سے مل کر یہ آپریشن لانچ کررہی ہے۔ سرحد پر جنگلہ بندی کا کام بھی جاری ہے اور ساتھ ساتھ ان ملک دشمن عناصر کو بھی دیس نکالا دیئے جانے کا منصوبہ ہے جو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر بیٹھ کر دشمن کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو یہ احساس بھی کرنا چاہئے کہ افواجِ پاکستان کو بالعموم اور پاک آرمی کو بالخصوص آج کن کن مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی بدبخت پاکستان آرمی کو پاناما کیس میں گھسیٹ کر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کی کوششیں کررہے ہیں جو انشا اللہ ناکام ہوں گی لیکن ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ’’ایک‘‘ پاکستان آرمی پر کون کون سے ’’انیک‘‘ الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔۔۔میں نریندر مودی کی بات کررہا تھا۔۔۔ ان کے گزشتہ چار سالہ دور میں انڈین مسلمانوں پر کیا گزری اور آج بھی کیاگزررہی ہے اس پر بین الاقوامی میڈیا کی ’’لولی لنگڑی‘‘ کوریج بھی مودی حکومت کے لئے باعثِ شرم ہونی چاہئے۔ انڈیا کی مسلم آبادی کے ساتھ آج جو برتاؤ کیا جارہا ہے اس کو پڑھ اور سن کر 1947ء کے مشرقی پنجاب کے ہولناک ایام کی یاد آتی ہے۔


انڈیا میں حالیہ برسوں میں جورائے شماری کروائی گئی اس کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد 17 کروڑ20لاکھ ہے۔ یہ آبادی انڈیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کا ایک کثیر حصہ اتر پردیش (UP) میں ہے جہاں مودی نے حال ہی میں ایک انتہا پسند ہندویوگی کو وزیر اعلیٰ بنادیا ہے۔ یہ یوگی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کا چلتا پھرتا اور زندۂ جاوید انسانی مجسمہ ہے۔ یوگی اور پنڈت ہونے کے ناطے اس کے منہ میں واقعی رام رام ہے لیکن بغل میں جو چھری ہے وہ ریاست کے مسلمانوں کے خلاف صبح و شام و شب ترازو ہے!


اتر پردیش جس کا دارالحکومت لکھنو ہے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے انڈیا کی ایک بڑی ریاست ہے جس میں مسلمانوں کی فی مربع کلو میٹر آبادی (ریاست جموں و کشمیر کے بعد) سب سے زیادہ ہے۔ نریندر مودی نے اسی باعث اپنے انتہا پسند یوگی کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے تاکہ وہ اس ریاست کے مسلم تہذیب و تمدن کے جگمگاتے ماضی کو دھندلا بنانے میں دن رات ایک کردے۔ مجھے اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ مودی کو یہ مشورہ یہودی اشرافیہ نے دیا ہوگا۔

آج نہیں بلکہ ایک بہت طویل عرصے سے یہودی اسرائیل میں جمع ہورہے ہیں۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کی تاریخ پر نظر دوڑائیے اور دیکھئے کہ یہودیوں نے کس مکاری اور عیاری سے فلسطینی مسلمانوں کے تناسب آبادی (ڈیموگرافی) کو متاثر کیا ہے۔ انڈیا بھی، اسرائیلی مشیروں کے مشورے پر کشمیر کی مسلم آبادی کا تناسب کم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ایک طرف یہودیوں کے یہ نظری مشورے ہیں اور دوسری طرف عملی طور پر تل ابیب نے نئی دہلی کو جدید عسکری ساز و سامان سے لاد دیا ہے۔ جہاں تک کشمیر کے انتفادہ کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بی ایس ایف (BSF)کو چھروں والی گن کس ملک نے مہیا کی تھی اور کشمیر کی مسلم آبادی کی نوجوان اکثریت کو بینائی کی نعمت سے محروم کردینے کی گھناؤنی سازش کس نے تیار کی تھی۔


دی نیو یارک ٹائمز میں ابھی تین چار دن پہلے ایک آرٹیکل شائع ہوا جس کا عنوان تھا:’’ایک زہر آلود ماضی سے اٹھتے ہوئے۔۔۔‘‘ یہ ایلن باری(Ellan Barry)کی طرف سے لکھنو سے فائل ہونے والی ایک چشم کشا داستان سے جس میں مصنف نے یوگی ادتیا ناتھ کے ماضی و حال پر ایک دلچسپ اور بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ اس مضمون میں مصنف لکھتا ہے:’’یہ یوگی وہ انسان نما حیوان ہے جس نے ہندوستان کے ماضی کی مسلم تاریخ کومٹانے اور از سرنو ایک نئی تاریخ لکھنے کے لئے اپنی ایک فوج ظفرفوج بنائی تھی جس کا چیف وہ خود تھا۔ اس فوج نے انڈیا کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اور آج بھی ڈھارہے ہیں وہ ہوشربا ہیں اور یوگی کی اسی کوالی فیکیشن کو مدنظر رکھ کر ہی مودی نے اسے مسلم آبادی کی اس سب سے بڑی انڈین ریاست کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ اس کے تقرر کا جب اعلان کیا گیا تھا تو کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ یوگی کون ہے، اس کا سیاسی ماضی کیا ہے اور آیا یہ اس ریاست کے انتظامی ، مذہبی، سماجی اور سیاسی حالات کو کنٹرول بھی کرسکے گا یا نہیں‘‘۔۔۔ ایلن باری کے اس آرٹیکل کے یہ دو جملے جو یوگی کی طرف منسوب ہیں بطور خاص توجہ طلب ہیں:’’یہ مسلمان دو ٹانگوں والے ایسے حیوان ہیں جن کو روکنا ازبس ضروری ہے۔۔۔ اور ہم سب ہندوستانی اب ایک مذہبی جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں‘‘۔


عمران خان نے مودی کے جس تعصب کا حوالہ دیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جو نہی ’’ نیو یارک ٹائم‘‘ کے صفحہ اول پر یہ خبر شائع ہوئی، انڈیا کے طول و عرض میں اس اخبار کی کاپیاں جلائی جانے لگیں اور امریکی حکومت کو برا بھلا کہنے کی مہم کا آغاز کردیا گیا۔ یوگی کی سیاسی پارٹی کا ایک دھڑا ’’ہندوستانی برادری‘‘ کہلاتا ہے اس نے جگہ جگہ تمام ریاست میں جا کر اس امریکی خبر کے خلاف مظاہرے کئے اور کہا کہ یوگی نے اتر پردیش کے لئے وہ کام کیا ہے (اور کررہا ہے) جس کی پورے انڈیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔۔۔ یوگی کی پارٹی کا آگرہ سے شائع ہونے والا ایک اخبار مودی کے آئندہ عزائم کی قلعی اس طرح کھولتا ہے:’’ نریندر مودی، مہاراج یوگی کی شکل میں بھارت دیش کو اپنا جانشین دے رہے ہیں!‘‘۔۔۔

مزید :

کالم -