بے اثر ادویات سے سالانہ 7لاکھ افراد موت کاشکار ہوتے ہیں: عالمی ادارہ صحت

بے اثر ادویات سے سالانہ 7لاکھ افراد موت کاشکار ہوتے ہیں: عالمی ادارہ صحت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نیو یا رک (آن لائن) عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ادوایات کے بے اثر ہونے سے دنیا میں سالانہ سات لاکھ افراد کی موت واقع ہو رہی ہے اور 2050ء تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی:عالمی ادارہ صحت کی ایک رپو رٹ میں کہا گیا ہے کہدنیا میں ایک نیا مسئلہ جنم لے رہا ہے۔ اینٹی بائیوٹک ادویات اثر کرنا چھوڑ رہی ہیں، جن انفکشنز کو باآسانی اینٹی بائیوٹک سے کنٹرول کرلیا جاتا تھا اب وہ نہیں ہو رہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان ادویات کا اثر بیماری پھیلانے والے جراثیم / بیکٹیریا پر نہیں پڑتا یا کم پڑنا شروع ہو گیا ہے، وہ ان کی مزاحمت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ادویات کے بے اثر ہونے سے دنیا میں سالانہ سات لاکھ افراد کی موت واقع ہو رہی ہے اور 2050ء4 تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ بھارت ان ممالک میں سے ہے جہاں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ اینٹی بائیوٹک کی ایجاد اور وسیع پیمانے پر استعمال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ بیسویں صدی کے اوائل سے قبل انفیکشن کا علاج دیسی ادویات اور طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ جراثیم کو تلف کرنے والے عناصر پر مبنی ادویات کے شواہد دو ہزار سال سے بھی قدیم ہیں۔ بہت سی قدیم تہذیبوں، جن میں چینی، مصری اور یونانی شامل ہیں، عام طور پر مختلف جڑی بوٹیوں اور پودوں سے ایسی ادویات بنائی جاتی تھیں، کم و بیش 60 سال ہوئے کہ اینٹی بائیوٹک نے بیماروں کی دنیا میں بڑے پیمانے پر جگہ بنائی جس سے شرح اموات کمی اورعمر کی طوالت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، لیکن اتنے سے عرصے میں جراثیم بھی اپنے مخالف کا مقابلہ کرنے کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے ان کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کیا اور اب تک خاصے کامیاب جا رہے ہیں۔یہ صرف جراثیم کا کمال نہیں، اینٹی بائیوٹک کا اندھا دھند اور غلط استعمال بھی بہت ہوا بالخصوص ان ترقی پذیر ممالک میں جہاں صحت کا شعبہ خستہ حال ہے اور احتساب کا نظام کمزور ہے، بھارت انہیں میں سے ہے، گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں ہر سال اینٹی بائیوٹک کے بے اثر ہونے کی وجہ سے 60 ہزار افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں، اسی برس ہونے والی ایک اور تحقیق میں اس کی وجوہ پر توجہ دی گئی اور پتا یہ چلا کہ بھارت میں نسخہ جات میں ضرورت سے زیادہ اینٹی بائیوٹک تجویز کی جاتی ہیں، ایک اور وجہ مویشیوں میں اینٹی بائیوٹک کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے، دیگر اسباب میں قواعد و ضوابط کی کمی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت اسے عالمی مسئلہ قرار دیتا ہے اور اس بارے میں خبردار کرچکا ہے۔ یہ مسئلہ ا?سٹریلیا اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ لیکن بھارت میں یہ نہ صرف سنگین ہے بلکہ وہ اس کے پھیلاو? کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ اس مسئلے کو "سپر بگ" کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
دراصل کسی ملک میں فی فرد شاید ہی اتنی اینٹی بائیوٹک استعمال ہوتی ہیں جتنی بھارت میں۔ یہی نہیں 2001ء4 سے 2010ء4 کے دوران ان کے استعمال میں 62 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کی کوئی اور بنیادی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ضرورت سے زیادہ یا یوں کہیے کہ اندھا دھند اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جا رہا جو در اصل سپر بگ کی سب سے بڑی وجہ بن رہا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ الزامات لگائے جارہے ہیں کہ بعض دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو اس جانب راغب کرتی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ان کی تیار کردہ اینٹی بائیوٹک تجویز کریں اور اس مقصد کے لیے رشوت وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ دوسری جانب زیادہ استعمال کا "رواج" بھی ہوگیا ہے، ایک اور وجہ لوگوں کا کسی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ان ادویات کو خرید کر استعمال کرنا ہے، میڈیکل سٹورز میں عام طور پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ نسخہ سند یافتہ ڈاکٹر نے لکھا ہے یا کسی اور نے، بس دوا دے دی جاتی ہے، بھارت میں یہ عام ہے۔ جانوروں اور پولٹری میں اینٹی بائیوٹک کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھارت میں انسانوں سے بھی زیادہ ہے۔ جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور یوں ان پر جو ادویات استعمال ہوتی ہیں ان کا اثر انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے، بھارت سے یہ مسئلہ دوسرے ممالک کو بھی منتقل ہورہا ہے۔ عالمگیریت کے ہم رکاب ہونے اور نیولبرل پالیسیوں کو اپنانے کے بعد بھارت میں غیر ملکیوں کا ا?نا جانا اور زیادہ عرصہ ٹھہرنا بڑھ گیا ہے۔ بیمار ہونے کی صورت میں انہیں علاج بھارت ہی سے کرانا ہوتا ہے جہاں اینٹی بائیوٹک کا غیر ضروری استعمال عام ہے اور پھر ان میں بھی اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت پیدا ہونے لگتی ہے، دنیا کو اس جانب توجہ دینا ہو گی اور بھارت کے کرتا دھرتاوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا تا کہ وہ مسئلے کی بڑھوتری کا باعث نہ بنیں ورنہ مسئلہ بڑھتا ہی جائے گا۔

مزید :

عالمی منظر -