کیا مسلم لیگ نون کے خیمۂ اقتدار کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں؟

کیا مسلم لیگ نون کے خیمۂ اقتدار کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں؟
 کیا مسلم لیگ نون کے خیمۂ اقتدار کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان مین آج کل ایک ایسا سیاسی طوفان آیا ہوا ہے کہ تین بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کیلئے وہ جہاں جہاں بھی ہیں اپنے اقتدار کے محلات کو منہدم ہونے سے بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وفاقی حکومت قائم کرنے کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی مگر پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اور پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں چنانچہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں بظاہر اپنے اپنے دائرۂ حکومت کے اندر مطمئن چلی آ رہی تھیں جبکہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد تو اپنی اہمیت بڑھانے کیلئے سیاسی انداز اپنایا اور عمران خان کے دولت کدے پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف تشریف بھی لے گئے حالانکہ اس وقت وہ نکتہ بھی لوگوں نے زیر بحث لانے کی کوشش کی کہ اس ملاقات کیلئے عمران خان نے وزیراعظم کو مدعو کیا تھا یا وزیراعظم نے خود عمران خان کے دولت کدے پر جاکر ان سے ملاقات کرنے کا عندیہ دیا بہرحال وہ ملاقات ہوئی اور پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اس قیاس آرائی نے زور پکڑا کہ مستقبل میں بہتر حکومتی کارکردگی پیش کرنے کے باب میں دونوں رہنماؤں میں تعاون کرتے رہنے کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس سیاسی افہام و تفہیم کے ڈانڈے اس طرح آگے بڑھنے کی توقع تھی کہ آئندہ عام انتخابات تک تینوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ حکومت میں اطمینان بخش حد تک ترقیاتی منصوبوں کی طرف متوجہ ہوکر پاکستانی عوام کی نگاہ میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہیں گی۔ مسلم لیگ نون مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں اپنی ترقیاتی جولانی دکھائے گی، پیپلز پارٹی سندھ میں ہر طرح کی سیاسی الجھنوں پر قابو پاکر 2013 میں پاکستان کی سطح پر انتخابات میں مایوس کن حالات سے دوچار ہو جانے کے باوجود اطمینان سے حکومت کرتی رہے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنے وجود میں آنے کے بعد پہلی بار پاکستان میں ایک صوبے یعنی خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت ہونے کا لطف لیتی رہے گی اور بطور حکمران جماعت کم از کم اپنے صوبے میں کوئی ایسا کارنامہ کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی کہ 2018 کے عام انتخابات میں مزید کامیابی حاصل کرنے کی اہل ثابت ہو مگر ہوا وہ کہ عمران خان نے خیبر پختونخوا کے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینے کے بجائے اگلے ہی سال یعنی 2014ء میں پاکستان کی وفاقی حکومت اور خصوصاً وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف اپنی سیاسی مہم کا آغاز کردیا اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرانے اور وزیراعظم کو مستعفی ہو جانے پر مجبور کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایک بڑے دھرنے کا اہتمام کیا جو کئی مہینوں تک جاری رہا اور ہر روز اس دھرنے کی کامیابی کے نعرے بلند کئے جاتے اور دھرنے میں شامل عمران خان کے خیر خواہوں کو اور پاکستان کے عوام کو یہ آس دلائی جاتی کہ نوازشریف آج یا زیادہ سے زیادہ کل مستعفی ہو جائیں گے گویا وہ آج گئے کہ کل گئے پھر وزارت عظمیٰ کا منصب خالی ہوتے ہی عمران خان کیلئے اس منصب پر متمکن ہو جانے کی راہ ہموار ہو جائے گی چنانچہ عمران خان کے اس دھرنے کو پاکستان عوامی تحریک کے ایک دھرنے نے بھی جس کو ایک ’’ہزار دھرنا‘‘ بھی کہا جانے لگا تھا واقعی اتنی تقویت دی کہ دنیا حیران ہوگئی ،مگر دھرنے کے وہ نتائج برآمد نہ ہوسکے جو عمران خان یا طاہرالقادری یا ان کے خیر خواہوں کو مطلوب تھے یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے دونوں دھرنے ختم ہوگئے مگر وزیراعظم اور عمران خان کے درمیان کشمکش جاری رہی تاآنکہ پانامہ لیکس پیپرز کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا حتیٰ کہ وہ کیس سماعت کیلئے سپریم


کورٹ پاکستان میں پیش ہوا اور پانچ رکنی بڑے بنچ نے اس کی سماعت کی جس کا فیصلہ ڈویژن پر موقوف ہوا یعنی دو جج صاحبان نے وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں فرمایا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے مگر تین جج صاحبان نے ان دو جج حضرات سے اختلاف کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بیٹے حسین نواز،حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز کی مالی بے ضابطگیوں اور منی لانڈرنگ وغیرہ کی مزید تحقیقات کیلئے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم مقرر کردی جو واجد ضیاء کی سرکردگی میں چھ اراکین پر مشتمل تھی جس نے ہر پندرہ روز کے بعد اپنی پروگریس رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرتے رہنا تھی اور 60 روز میں اپنا سارا کام مکمل کرکے 10 جولائی 2017 کو اپنی فائنل رپورٹ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے پیش کرنا تھی۔ اس ٹیم نے تحقیقات کیلئے حسین نواز کو چھ مرتبہ طلب کیا اور تقریباً تیس گھنٹے تک ان کو مختلف متعلقہ سوالات کے جوابات دینے کے عمل سے گزارا پھر حسن نواز کو بھی تین مرتبہ پیش ہونے کا حکم دے کر ان کو پندرہ گھنٹے تک تفتیشی مراحل میں رکھا۔ اسی طرح خود وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سپریم کورٹ کے طے کردہ طریق کار کے مطابق جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس تحقیقاتی اور تفتیشی عمل سے وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر، وزیراعظم کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کے کزن طارق شفیع اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما رحمان ملک کو بھی طلب کرکے اپنی فائنل رپورٹ جب طے شدہ وقت کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی فاضل بنچ کو پیش کی گئی اور اسی روز وہ پاکستان ٹیلی ویژن چینلز پر بھی نشر ہونا شروع ہوگئی تو اس کا حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں پر مختلف اثر ہوا۔ حکمران جماعت نے تو سرے سے اسے مسترد ہی کردیا۔ چار ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ کو ردی کا ایک ٹکڑا اور عمران نامہ قرار دے دیا،جبکہ عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں میں دیگر جماعتوں سے کہیں زیادہ رپورٹ کی پذیرائی کی اور میڈیا میں کھل کر اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس رپورٹ میں جو حقائق پیش کردیئے گئے ہیں ان کے پیش نظر وزیراعظم کو فوراً اپنے منصب سے الگ ہو جانا چاہئے۔ اس کشمکش کے دوران ہی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے میاں نوازشریف نے وزیراعظم ہاؤس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جس کی سب سے اہم بات وہ تھی کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں اس وقت اجلاس میں پہنچے جب اجلاس کی کارروائی وزیراعظم کی صدارت میں خاصی آگے بڑھ چکی تھی پھر چودھری نثار علی خان نے دیگر مقررین کے مقابلے میں طویل تقریر اور اپنے 45 منٹ کے خطاب میں وزیراعظم کے کان کھول دیئے کہ اس وقت وزیراعظم جس کٹھن صورتحال سے دوچار ہیں وہ دراصل ان کے خوشامدی لوگوں کی پیدا کردہ ہے اور ان لوگوں نے جو تقاریر کی ہیں وہ نہیں کی جانی چاہئے تھیں تاکہ صورتحال مزید خراب اور پیچیدہ نہ ہوتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ کے اگر کچھ تحفظات تھے تو بہتر تھا کہ آپ مجھ سے علیحدہ بات کرتے۔ نثار علی خاں نے کہا کہ میں نے 32 برس میں ایک بار صرف آپ سے یہ کہہ دیا تھا کہ آپ مجھے وزیر خارجہ بنادیں مگر آپ نے نہیں بنایا تو میں نے اور کوئی چیز کبھی آپ سے طلب نہیں کی۔ اس اجلاس میں نثار علی خاں کے تیور یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے وہ شیخ رشید سے کوئی مشورہ کرکے آئے تھے اور انہیں مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ دینے اور وزارت سے دست کش ہو جانے کا کوئی فکر نہیں تھا جس کا ایک ثبوت انہوں نے وہ بھی دیا کہ اگلے روز وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمنٹیرین کا جو اجلاس طلب کیا اس میں چودھری نثار علی تشریف آور نہ ہوئے چنانچہ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے میرے جیسے سیاسی ماہروں اور تجزیہ نگاروں نے واشگاف انداز میں وہ دیکھ لیا ہے کہ وزیراعظم اپنے پانچ پیاروں یعنی میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، چودھری نثار علی، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف سے مشورہ کرنے کی بجائے صرف اپنے چار پیاروں کے مشوروں پر کان دھرتے ہیں اور چودھری نثار علی مکمل طور پر نظرانداز کردیئے جاتے ہیں کیونکہ وہ نہ تو بٹ ہیں، نہ ڈار ہیں اور نہ خواجے ہیں گویا اب وزیراعظم جن مشیروں میں گھر چکے ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے کابینہ کے اجلاس میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے وزیراعظم نوازشریف سے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے اس سے کوئی معجزہ ہی آپ کو بچاسکتا ہے اس کے جواب میں وزیراعظم نے صرف یہ کہا ہے کہ میں مستعفی ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا میں تو اپنی قوم کیلئے مسلسل لڑوں گا۔ وزیراعظم کے لئے یہی راستہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے الگ ہوجائیں ورنہ یاد رکھیں کہ مسلم لیگ نون کے خیمۂ اقتدار کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں اور وہ نہ ہو کہ میاں نوازشریف اس خیمے کے نیچے آجائیں۔

مزید :

کالم -