ووٹ دینے کا آسان فارمولا

ووٹ دینے کا آسان فارمولا
ووٹ دینے کا آسان فارمولا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ووٹ کے متعلق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ووٹ آپ کی رائے ہے ۔ایک معاشرے اور ملک میں رہتے ہوئے، آپ کا ایک اہم قومی فریضہ ہے کہ آپ صوبائی اور وفاقی سطح کی اسمبلیوں کے رکن منتخب کرنے کے لئے اپنے علاقے کے بہترین افراد کے حق میں رائے دیں۔

دراصل ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے اور حکومت میں آکر قوم کے اربوں روپے پر ہاتھ صاف کرنے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے عمومی حالات میں بالخصوص انتخابات کے دوران پراپیگنڈا اورہلڑ بازی کے ذریعے ملکی فضا کو اس قدر دھندلا دیا جاتا ہے کہ عام لوگ تو ایک طرف اچھے خاصے داناؤں کے لئے بھی سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا اور رائے دہندگی کے فرض سے احسن طریقے سے سبکدوش ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔

سیاست اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے متعلق زیادہ تر معلومات ہمیں اخبارات،ٹیلی وژن چینلز، ریڈیو اور سوشل میڈیا سے ملتی ہیں۔ گذشتہ ایک دو عشروں سے سیاسی حالات پر اثر انداز ہونے کے سلسلے میں میڈیا کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انتخابات کے قریب ہر سیاسی جماعت اور امیدوار میڈیا پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثرو رسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میڈیا کو اشتہاری بزنس دینے والے لوگ لازمی طور پر میڈیا کے مندرجات اور پروگراموں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے مالکان کے علاوہ صحافیوں ، تجزیہ کاروں اور معروف کالم نویسوں کو قابو کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔

عمدہ کردار کے مالک مدبر اور وطن دوست صحافیوں کو چھوڑ کر باقی لوگوں سے کسی کا بک جانا بعید از قیاس نہیں، ان لوگوں کی جھوٹی خبریں، جھوٹے اور کھوکھلے تبصرے اور تجزیے قومی فضا میں ایسی دھند اٹھا دیتے ہیں کہ سچ اورجھوٹ میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے۔ پانچ سال کے بعد ایک بار آنے والے انتخابات میں بھی لوگ ووٹ کے سلسلے میں اپنی قومی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے تدبر اور جانچ پرکھ نہیں کرتے، محنت کرنے کو تیار نہیں ۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح میڈیا ارب پتی سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی انہی لوگوں نے جعلی اکاؤنٹ بناکر اپنے سینکڑوں میڈیا منیجر بٹھائے ہوئے ہیں، جو دن رات مخالفوں کے خلاف زہریلے پراپیگنڈا میں مصروف ہیں ایسی ایسی بے پر کی چھوڑتے ہیں کہ جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ایسی زہریلی فضا کے اثرات سے بچنے کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ کوشش اور احتیاط کی ضرورت ہے ۔ 
ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے سے ایک ایک بہتر صلاحیت اور بہتر کردار کے شخص کو قومی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے اسمبلی میں لیا جانا ہے، اس کے لئے مختلف امیدوار سامنے آتے ہیں ، لیکن سب سے موزوں شخص کون ہے ؟ اس کا فیصلہ ہماری اجتماعی ذہانت اور شعور کے استعمال سے کیا جاتا ہے۔

حلقے کے تمام بالغ خواتین حضرات سے ووٹ کی صورت میں ان کی رائے لی جاتی ہے۔ دیانتدار اور باوقار رائے وہی ہوگی ،جس کے سلسلے میں رائے دینے والے نے تمام ضروری معلومات محنت کرکے حاصل کی ہوں۔

امیدواروں کی طرف سے اپنی حمایت میں کمپین کرنے کے لئے حمائیتیوں کی ٹولیاں تیار کی جاتی ہیں سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کی حمایت میں ملکی سطح پر سرگرم ہوجاتی ہیں۔ اپنے حلقے کے امیدواروں کے متعلق صحیح حقائق تک پہنچنا عام آدمی کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

بہت سے لوگ اس اہم ترین ذمہ داری سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں ، جس امیدوار کی حمایت میں زیادہ شور سنا جس کی طرف سے زیادہ ڈھول ڈھمکا دیکھا اسی کی کامیابی کا یقین کرکے اسے ووٹ دے دیا۔

ہمارے ہاں ان گنت لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں کہ صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیا جائے، جس کے جیتنے کا یقین ہو۔ یہ نقطہء نظر قومی مقاصد کے مقابلے میں انتہائی پست اور بیمار ذہنیت کا حامل ہے، اس کی صورت ایسی ہی ہے جیسے کوئی عیسائی یا ہندو اکثریتی علاقے میں رہتے ہوئے اپنا دین چھوڑ کر صرف اس لئے عیسائی یا ہندو ہوجائے کہ اس کے علاقے میں زیادہ لوگ وہی ہیں، اس کے بعد دوسرا بہت بڑا مرض ہمارے ووٹرز، سپورٹرز اور سیاستدانوں کا یہ ہے، انہوں نے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ جانے کو اپنی شاندار فتح اور اپنے ساتھ موجود کم ووٹ لینے والے امیدواروں کی ذلت آمیز شکست قرار دینے کا رویہ اختیار کررکھا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو امیدوار ہمارے سامنے آئیں ان میں سے نہایت ذمہ داری کے ساتھ ہم نے سب سے اہل شخص کو ووٹ دینا ہوتا ہے۔ جسے کم ووٹ ملیں وہ اگر (جسیے کہ ہر کوئی دعوے کرتا ہے) عوامی خدمت اسمبلی سے باہر رہتے ہوئے بھی جاری رکھے اور خدمت کی اچھی مثالیں قائم کرے تو اس طرح وہ اسمبلی میں پہنچنے والے سے بھی بڑھ کر کامیاب ہے۔

اسمبلی کی رکنیت حاصل نہ ہوسکنا کسی کی شکست ہرگز نہیں۔ نہ ہی اسمبلی میں پہنچ جانے والے کی یہ کسی طرح فتح مندی ہے کہ ابھی تو اس پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں اہم قومی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے، اس کی اصل کامیابی تو اس وقت ہوگی، جب وہ پانچ سال تک اپنے کام کے ذریعے اس اعتماد پر پورا اترے گا ، اور دیانتداری سے اپنے فراءَض اور قومی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ 

اکثر ان پڑھ ، لالچی اورخود غرض لوگ ووٹ کو اپنی ذمہ داری کے بجائے اپنا مال تجارت یا اپنا حق سمجھتے ہوئے،اس کا مول لگوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ووٹ قومی معاملا ت کے سلسلے میں ہماری رائے ہے، جو ہم سے ایک طویل عرصہ کے بعد طلب کی جاتی ہے۔

رائے کے سلسلے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی آپ سے رائے طلب کرے تو سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو اس قابل بنایا ہے کہ کوئی آپ سے رائے طلب کررہا ہے۔ اس کے بعد نہایت ذمہ داری اور دیانت کے ساتھ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو درمیان میں لائے بغیر رائے کو ایک امانت سمجھتے ہوئے رائے طلب کرنے والے کے بہترین مفاد میں اسے رائے دیں۔ عام انتخابات میں پوری قوم آپ سے الیکشن کمیشن کی وساطت سے رائے طلب کررہی ہے۔ مختلف سیاسی گروہوں کی طرف سے اور بعض آزاد حیثیت میں بھی صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر چنے جانے کے لئے لوگ امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

آپ نے یہ بتانا ہے کہ ان سے کون سا امیدوار موزوں ترین ہے اور بس۔

بدقسمتی سے اپنے حق میں رائے لینے والوں کی طرف سے بھی ایسے ایسے ہتھکنڈے برتے، ایسے ایسے ڈرامے کئے اور ایسے لالچ دئیے جاتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ لٹکے پھرتے ہیں۔ کسی کے لئے نفرت اور کسی کے لئے محبت دل میں پالنے لگتے ہیں، جبکہ سبھی اہل وطن ہماری محبت کے مستحق ہیں۔ ووٹ کا حق صحیح طور پر ادا کرنے کے لئے آپ کو یہ باتیں ذہن میں رکھنا ہوں گی۔
۱۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہر طرح کے پراپیگنڈا کو اپنے ذہن سے دور کریں۔ امیدواروں کے متعلق ذاتی طور پر بہترین ذرائع سے درست معلومات حاصل کریں۔ 
۲۔ ابھی سے8300 پر ڈائل کرکے اپنا شناختی کارڈ نمبر انہیں بھجوائیں اور اپنے ووٹ کا سیریل نمبر اور پولنگ بوتھ کا علاقہ معلوم کریں۔
۳۔اسمبلیوں میں قانون سازی اور اگر موقع ملے تو پھر وزارت کی ذمہ داری نبھانا انتہائی قابلیت کا متقاضی ہے، صرف ا علی تعلیم یافتہ اور قابل امیداوروں میں سے ووٹ کے مستحق کا انتجاب کریں۔
۴۔ ہلڑ بازی اور آوے ای آوے جیسے نعروں اور دھما چوکڑی سے نامعقولیت کی فضا پیدا کرنے والے عام طور پر خود غرض اور دھونس باز لوگ ہوتے ہیں، جو چنددن ہی کے لئے آٖپ کو اچھے نظر آتے ہیں۔ ۵۔ آپ اپنی ذات ، برادری ، اور گروہ سے اوپر اٹھ کر مجموعی قومی مفاد کر سامنے رکھ کر سوچیں گے تو پھر ہی ووٹ کے استعمال کا صحیح فیصلہ کرسکیں گے۔ صرف تعلق داری اور کسی کے کہنے سننے تک محدود نہ رہیں۔۶۔کسی کے بہت زیادہ اشتہارات لگوانے یا اخبار اور ٹیلی وژ ن یا سوشل میڈیا پر زیادہ نظر آنے ہی کو کافی نہ سمجھیں، امیدواروں کے شورو غوغا اور نعروں کے بجائے ان کے حقیقی کردار کی تہہ تک پہنچیں۔
۷۔امیدواروں کے پارٹی والوں یا ورکروں کی باتوں پر انحصار ہرگز نہ کریں، ان کی طرف سے آج کل جھوٹ کے طومار باندھے جارہے ہیں، ان سے حق کی بات کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ 
۸۔ جہاں سے بھی کسی امیدوار کے متعلق کچھ معلومات ملیں،معلومات دینے والے کے امیدوار سے تعلقات کی نوعیت پہلے معلوم کریں، ان معلومات کی حقیقت اس کے بعد ہی کھل سکتی ہے۔
۹۔ امیدواروں کی تائید و حمایت میں کسی مہم کا حصہ بے شک بنیں، لیکن کسی ہلڑ بازی ، نعرے بازی، یا جذباتیت کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔ 
۰۱۔یاد رکھیں کہ چیخنے چلانے، اونچی آواز سے کڑکنے برسنے اور دوسروں کو للکارنے والے ہی سچے انسان نہیں ہوتے، سچ، حق اور منظق و استدلال کی باتیں عام طور پر معتدل اور دھیمے لہجے میں کہی جاتی ہیں ۔ 
۱۱۔اگر آپ اجتماعی قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے کے بجائے رشتہ داری یا ذات برادری کے تعلق یا محض ذاتی اور گروہی مفاد کی بناء پر کسی امیدوار کی محبت میں مبتلا اور سرگرم ہوچکے ہیں ، تو پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے اندر گہرائی۔۔۔تک جھانکیں۔ کیا آپ اپنی خود غرضی میں پوری قوم کی گردن پر چھری پھیر دینے والے انسان ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس پوری قوم پر رحم کریں اور پولنگ کے دن باہر نکل کر قوم و ملک کے مستقبل کو دھندلانے کے بجائے اپنے گھر ہی میں آرام کریں۔

مزید :

رائے -کالم -