نون لیگ جیت جائے گی
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے تازہ شمارے میں پاکستانی سیاست پر From Villain to victimکے عنوان سے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر ایک رپورٹ لکھی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جب نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان واپس جا رہے ہیں تو کسی نے ان پر یقین نہ کیا۔ 6جولائی کو قومی احتساب عدالت نے 68سالہ سابق وزیراعظم کو دس سال قید سنائی ہے۔
ان حالات میں پاکستانی سیاست دان عام طور پر یہاں سے جانے کی بجائے لندن سدھارتے ہیں ۔ اس کے علاوہ نواز شریف کی اہلیہ بھی لندن کے ایک اسپتال میں وینٹیلیٹر پر ہیں لیکن نوا ز شریف کا اصرار تھا کہ وہ فلائیٹ لے کر 13جولائی کو لاہور پہنچیں گے۔ان کا یہ قدم 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کا رخ تبدیل کرسکتا ہے۔
یہی جریدہ آگے چل کر لکھتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مصالحت ہوجائے گی۔ ان کے چھوٹے بھائی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف عرصہ دراز سے اس کے حق میں وکالت کرتے رہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک کمزور حکومت کی خواہش کے باوجودوہ کہہ رہے ہیں کہ نون لیگ کو اگر واضح اکثریت نہ ملی تو اتحادیوں پر مشتمل ایک حکومت بنائے گی۔ اپنے بھائی کی گرفتاری پر ان کا ردعمل اتنا متاثر کن نہ تھاجبکہ ان کے مقابلے میں نواز شریف تصادم کی سیاست کر رہے ہیں۔
جریدے کے مطابق 25جولائی کو گھمسان کا رن پڑ سکتا ہے۔ انتخابی مہم سے نواز شریف کی عدم موجودگی نون لیگ کو نقصان پہنچاتی نظر آرہی ہے۔ گیلپ کے تازہ ترین سروے کے مطابق پی ٹی آئی نے نون لیگ سے اپنے مقبولیت کے خلا کو کافی حد تک پرکیا ہے اور اب ہم پلہ دکھائی دے رہی ہے۔
اسی طرح Credit Suisseنامی ایک بینک نے کہا ہے کہ اس بات کے 75فیصد امکانات ہیں کہ انتخابات کے بعد عمران خان ایک اتحادی حکومت کی سربراہی کررہے ہوں گے۔ لیکن نواز شریف کی واپسی صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ نون لیگ کے حلقے دوبارہ سے چارج ہو گئے ہیں۔
ان کی گرفتاری بلاشبہ ایک تناؤ کی کیفیت کو جنم دے گی ، کچھ کا خیال تھا کہ ان کے طیارے کا راستہ تبدیل کردیا جائے گا، کچھ کہہ رہے تھے کہ انہیں طیارے کے اندر ہی ہتھکڑی لگالی جائے گی تاکہ ایئرپورٹ پر ان کے حامیوں سے تصادم سے بچا جا سکے۔
جو کچھ بھی ہو، نواز شریف ان کی صاحبزادی جان کا نذرانہ دینے تک کو تیار نظر آتے ہیں اور اگر نون لیگ انتخابات ہار جاتی ہے تو بھی نواز شریف کی قید ان کے عوامی امیج کو ایک ٹیکس چور سے جمہوریت کے چمپئین میں بدلنے کو دیر نہیں لگے گی اور یہی وہ نتیجہ ہے جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کبھی حاصل نہیں کرنا چاہے گی۔
واضح رہے کہ جریدے نے یہ رپورٹ اس وقت فائنل کی تھی جب نواز شریف نے ابھی پاکستان واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔ اس سے قبل یہی جریدہ لکھ چکا ہے کہ 25جولائی کے انتخابات کے بعد شہباز شریف پاکستان میں اگلی حکومت بنائیں گے۔
ہم اپنے قارئین کو یہ بھی یاد دلائیں کہ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل اسی جریدے نے لکھا تھا کہ نون لیگ 60فیصد نشستیں جیت جائے گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔
اب بھی جریدہ چیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ اگر نون لیگ ہارتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ سے ہارے گی، تحریک انصاف سے پھر بھی نہیں ہارے گی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا انحصار خالی تحریک انصاف پرنہیں بلکہ اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کی کھیپ اور تحریک لبیک یا رسول اللہ جیسی دیگر جماعتوں پر ہے اور ان سب کو ملا کر ایک نئی آئی جے آئی تشکیل دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
تاہم واضح رہے کہ جب آئی جے آئی بنائی جا رہی تھی تب بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ نے سارے انڈے مرحوم غلام مصطفےٰ جتوئی کی ٹوکری میں رکھے ہوئے تھے مگر جب وہ لاہور شہر سے جلسوں کو خطاب کرتے اوکاڑہ شہر پہنچے تھے تو فضا وزیر اعظم نواز شریف کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی ۔
چنانچہ غلام مصطفےٰ جتوئی کو قیادت چھوڑ کر واپس سندھ جاتے ہی بنی تھی،جبکہ نواز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنی مقبولیت کے بل پر اس سے آگے بڑھے تھے ، تبھی تو انہوں نے حکومت بنانے کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے نعرہ مستانہ بلند کیا تھا کہ ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ اور پھر لاکھوں پاکستانی ان کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ چنانچہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی جے آئی نواز شریف کے لئے بنائی گئی تھی ، ویسی ہی غلط فہمی میں مبتلا ہیں جیسی نوے کی دہائی سے چودھری اعتزاز احسن کو ہے۔ اسی طرح شیخ رشید جیسے کئی شیدا ٹلی جنرل مشرف کے دور میں شور و غوغا کرتے رہے کہ نواز شریف ایک ڈیل کے تحت جدہ گئے ہیں جبکہ نواز شریف ہمارے اس شعر کہ
یہ جدہ ہے ،کسی کا دل نہیں ہے
سو اس کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے
کے مصداق جنرل مشرف کی مرضی کے بغیر پاکستان واپس لوٹ آئے تھے۔اب بھی نواز شریف نے نیب عدالت سے سزا بولے جانے کے باوجود وطن واپسی کا فیصلہ کرکے اپنے اوپر سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے تاثر کی نفی کردی ہے،وہ ایک جینوئن سیاست دان ہیں۔نواز شریف آئی جے آئی کی پیداوار ہیں نہ ڈیلوں کے قائل ہیں اور اسی لئے پاکستان کے عوام انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی جماعت کو جتوا کر ہی دم لیں گے۔25جولائی کون سا اب دور کی بات ہے ، اگلے بدھ تک کی تو بات ہے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا!
اس میں شک نہیں پاکستانی قوم اپنے اداروں سے بے پناہ محبت کرتی ہے ، خود نواز شریف بھی پاک فوج کے جوانوں کو اپنی آنکھ کا تارا کہتے ہیں لیکن یہ اس سے بڑی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے سیاسی معاملات میں کسی بھی غیر جمہوری قوت کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتی اور اسے جب جب موقع ملتاہے جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔ فوج توپھر فوج ہے ہماری قوم تو مذہبی جماعتوں کو عام انتخابات میں اس لئے نہیں چنتی کہ اسے معلوم ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کے لئے کس کا انتخاب ضروری ہے ۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر لوگ فوجی حکومتوں کے اتنے ہی دلدادہ ہوتے مشرق وسطیٰ کی طرح ہمارے ہاں بھی چالیس چالیس سال تک فوجی حکمران اقتدار میں رہتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس قوم نے دس سال کے اندر اندر ہر ڈکٹیٹر سے جان چھڑوائی ہے اور اپنی طاقت کے زور پر چھڑوائی ہے۔
بعض ناعاقبت اندیشن سیاسی رہنما اپنے اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا سہار ا لیتے ہوں تو لیتے ہوں ، عوام کبھی ان کے سہارے آگے بڑھنے پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
اس لئے اگر اس بار بھی نواز شریف کے خلاف پراپیگنڈہ کی مہم صرف 24جولائی کی رات تک رہی اور 25جولائی کو پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی کی کوشش نہ کی گئی تو بیلٹ باکسوں سے عوام کا فیصلہ جمہوریت کے حق میں نکلے گااور اس وقت جمہوریت کا دوسرا نام نواز شریف ہے۔نون لیگ کو صرف زیادہ تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ پراپیگنڈے سے خچر کو گھوڑا تو کیا گدھا بھی نہیں ثابت کیا جا سکتا۔