امریکی سٹیلتھ ڈرون RQ-170 کی کہانی

امریکی سٹیلتھ ڈرون RQ-170 کی کہانی
امریکی سٹیلتھ ڈرون RQ-170 کی کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ 4دسمبر 2011ء کا واقعہ ہے۔۔۔۔ ایران کی فضاؤں میں امریکہ کا ایک انتہائی جدید ڈرون 50ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ اس میں امریکہ نے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا خوب خوب استعمال کیا تھا جس کا آسان مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون کسی راڈار کی سکرین پر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔

اس میں ایسے سٹیٹ آف دی آرٹ آلات نصب تھے جو دنیا کے جدید ترین راڈار کو دھوکا دے سکتے تھے۔ لیکن اچانک یہ ہوا کہ اس ڈرون کا رابطہ کنٹرول اسٹیشن سے منقطع ہو گیا اور کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کو کیا حادثہ پیش آیا ہے۔ کیا ایرانی ائر ڈیفنس آلات نے اس کو مار گرایا ہے یا یہ خود اچانک منظر سے غائب ہو گیا ہے۔ اس ڈرون کے پیچھے امریکی جاسوس طیارے بھیجے گئے جو 60ہزار فٹ کی بلندی سے زمین کے ذرے ذرے کی تصاویر اتار سکتے تھے۔

ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ ڈرون ایرانی سرزمین پر گرا ہوا ہے اور اتنی بلندی سے گرنے کے باوجود بھی صحیح و سالم دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ڈرون کا عسکری اور اصطلاحی نام آرکیو۔170 (RQ-170) تھا اوراسے امریکہ کی ایک مشہور و معروف طیارہ ساز فرم، لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin)نے ڈویلپ اور تیار کیا تھا۔ 2011ء سے لے کر اب تک سارا مغربی بلاک پریشان ہے کہ ایران جیسے تیسری دنیا کے پس ماندہ ملک نے اپنی فضاؤں پر سے اسے نہ صرف مار گرایا ہے بلکہ صحیح و سالم اپنی زمین پر لینڈ بھی کروا لیا ہے۔
امریکہ نے 2003ء میں عراق پر حملہ کیا تھا اور اس وقت ایران کی فضاؤں میں فضائی دفاع کا کوئی ایسا نظام موجود نہ تھا کہ امریکہ کو یہ خدشہ ہوتا کہ اتنی بلندی پر اڑتا ہوا اس کا ڈرون نیچے اتار لیا جائے گا۔

امریکی یوٹو (U-2) جاسوس طیارہ جو یکم مئی 1960ء کو پاکستان کی بڈابیر فضائی بیس سے اڑا تھا اس کو روس کی جاسوسی کرتے ہوئے رشین میزائل نے مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو کہ جو اپنے طیارے سے نیچے کود گیا تھا، گرفتار کر لیا تھا۔

لیکن وہ روس کا معاملہ تھا جو اس وقت دنیا کی دوسری سپرپاور تھی۔ لیکن یہ تو ایران تھا جس کا فضائی دفاعی نظام ہنوز امریکہ کے مقابلے میں نہایت کمزور تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کا کوئی مقابلہ ہی اس فیلڈ میں ایران سے نہیں کیا جا سکتا تھا تو بے جا نہ ہوگا!
عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران (2003ء سے لے کر 2011ء تک) امریکہ کے بھاری بھرکم ٹرانسپورٹ طیارے ایرانی فضاؤں میں بے خوف و خطر آتے جاتے رہتے تھے اور اس بات کا کسی کو سان گمان بھی نہ تھا کہ ایرانی ائر ڈیفنس سسٹم اچانک اتنا جدید اور کارگر ہو جائے گا کہ RQ-170 جیسے سٹیلتھ طیارے کو نیچے اتار لے گا۔

لیکن عراق اور افغانستان کی جنگوں کے انہی برسوں میں ایران کو اس بات کی فکر لاحق ہوئی کہ آج اگر عراق پر حملہ کرکے اسے بے بس بنایا جا سکتا ہے تو آنے والے کل میں ایران کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔

چنانچہ ایرانیوں نے تیل کی دولت سے وہ کام لیا جو باقی عرب / مسلمان ملکوں کے وہم و خیال میں بھی نہ تھا۔ ایران نے اپنی تجوریوں کے منہ روسیوں کے آگے کھول کر رکھ دیئے اور ان سے ائر ڈیفنس سسٹم کی جدید ٹیکنالوجی اور متعلقہ آلات خریدے اور اپنی فضائی دفاعی قابلیت کو روس ہی میں اپنے ماہرین بھیج کر ٹریننگ دلوانا شروع کر دی۔

2003ء سے لے کر 2011ء تک کے آٹھ برسوں میں اس خصوصی عسکری فن میں ایران نے وہ مہارت حاصل کر لی کہ RQ-170 جیسے جدید ترین سٹیلتھ ڈرون کو الیکٹرانک وار فیئر سسٹم سے کام لیتے ہوئے نہ صرف اس کا سراغ لگا لیا بلکہ اس کو بغیر کسی نقصان کے زمین پر لینڈ کروانے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
جب امریکہ کو معلوم ہوا کہ اس کا یہ ڈرون ایرانیوں کے قبضے میں آ چکا ہے تو پہلے تو اس بات سے صاف انکار کر دیا کہ ایران نے اس کا یہ ڈرون اپنے قبضے میں لے لیا ہے لیکن بعد میں تسلیم کرنا پڑا اور ساتھ ہی ایران سے درخواست بھی کرنا پڑی کہ اس طیارے کو واپس کر دیا جائے۔۔۔ ایران نے یہ درخواست مسترد کر دی!
انہی برسوں میں ایران نے روس سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لئے بھی بڑی سنجیدگی سے مذاکرات شروع کر دیئے۔ جیب اگر بھری ہو تو دنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ روس کو زرمبادلہ کی ضرورت تھی اور ایران کو جوہری اہلیت درکار تھی تاکہ اسرائیل کے ایٹم بموں کا جواب دیا جا سکے۔

چنانچہ روس کے جوہری سائنس دانوں اور انجینئروں نے ایران میں مختلف موزوں مقامات کی نشاندہی کرکے وہاں جوہری قوت پیدا کرنے کے لئے مختلف کارخانوں اور تنصیبات کی تعمیر پر کام شروع کر دیا۔ ایران کی سرزمین بھی پاکستانی سرزمین کی طرح ہر قسم کی ٹیرین سے مالامال ہے۔

سرسبز و شاداب میدان ، تپتے ہوئے ریگستان،شور انگیز دریا اور بلند و بالا پہاڑ، سب کچھ فطرت نے ایرانیوں کو عطا کر رکھا ہے۔ چنانچہ روسیوں نے موزوں مقامات کا انتخاب کرکے وہاں جوہری ری ایکٹر، بھاری پانی وغیرہ اور اسی طرح کی دوسری تعمیرات پر کام شروع کر دیا۔ امریکیوں کو پتہ اس وقت چلا جب ایران نے اس جوہری فیلڈ میں کافی پیشرفت کرلی۔

تاہم امریکیوں نے ان ایرانی تنصیبات کی تصویر کشی، سروے لینس اور مانیٹرنگ جاری رکھی۔RQ-170 سے بہتر کوئی بھی دوسرا فضائی پلیٹ فارم ایسا نہ تھا جو امریکی تقاضوں اور خواہشات کی کفالت کرتا۔ چنانچہ دن رات ایران کے جوہری ٹھکانوں کی نگہداری اور جاسوسی شروع ہو گئی۔

یوں تو ایران کے طول و عرض میں 20کے قریب جوہری تنصیبات پھیلی ہوئی ہیں لیکن زیادہ معروف تنصیبات آرک، بوشہر، گاچن، اصفہان، ناتانز، پارچن، قُم، فورڈ، ساگند، یزد، رامسر اور تہران میں واقع ہیں۔ (نقشہ دیکھئے)
آخر کار امریکی انٹیلی جنس اداروں نے پتہ چلا لیا کہ ایران نے اس ڈرون کے ڈیٹا لنک میں مداخلت کرکے پہلے اس کے اس سسٹم کو بے کار کر دیا اور پھر اپنی طرف سے اس سسٹم میں ایسا ڈیٹا فیڈ (Feed) کیا جس کے توسط سے ڈرون کو صحیح ثابت زمین پر اتار لیا گیا۔
قارئین گرامی! راڈار کی ٹیکنالوجی اور اس کی اصطلاحیں اتنی اجنبی اور نامانوس سی ہیں کہ اردو زبان کے قارئین کو ایک ایک کی تشریح اور وضاحت کرنے کے لئے کئی اوراق درکار ہوں گے۔ مثلاً روس کے راڈار سسٹموں میں ایک کاؤنٹر سسٹم ایسا بھی ہے جس کو اصطلاح میں (1L-222 Avtobaza) کہا جاتا ہے۔

اس اصطلاح کو اپنے سمارٹ فون پر یا کمپیوٹر میں فیڈ کیجئے اور دیکھئے کہ کیسی کیسی پیچیدہ اصطلاحیں آپ کے سامنے آتی ہیں اور راڈار سے متعلق کیا کیا معلومات آپ کو ملتی ہیں۔

خود میں ایک گھنٹے سے زیادہ اس خارزار میں اٹکا اور الجھا رہا اور تب جا کر سمجھ آئی کہ راڈار سسٹم کی تاریخ اور اس کا جغرافیہ کیا ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے کیسی کیسی نامانوس اصطلاحوں اور الفاظ و مرکبات سے پالا پڑتا ہے۔ اس لئے میں آپ کا زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا۔ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ایرانیوں نے امریکیوں کا جدید ترین اور پیچیدہ الیکٹرانکس ٹیکنالوجی سے لیس یہ ڈرون اپنے ہاں اتار کر امریکیوں کو از بس حیران و پریشان کر دیا۔
2011ء میں بارک اوباما امریکہ کے صدر تھے ان کو ایک سابق نائب صدر ڈک چینی (Dick Cheney) نے مشورہ دیا کہ فوراً اپنے بمبار ایران کی فضاؤں میں بھیجو اور اپنے اس ڈرون کو زمین پر ہی تباہ کر دو وگرنہ اس کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی اور دوسرے جدید ترین آلات جن کو امریکہ نے برس ہا برس لگا کر سیکھا اور حاصل کیا ہے وہ روس، چین اور باقی امریکہ دشمن ممالک کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ لیکن اوباما کے فوجی مشیروں نے اس مشورے کو رد کر دیا۔

ان کو شائد اس بات کا علم نہ تھا کہ ایران نے اور کتنی اور کیسی کیسی ٹیکنالوجی معلومات روس سے حاصل کر لی ہیں۔ امریکیوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ ممکن ہے وہ ہمارے بمباروں کو بھی اپنے جدید ائر ڈیفنس سسٹم سے تباہ کردے۔ اگر ایسا ہو گیا تو امریکہ کی عظمت کا سارا بھرم چکنا چور اور سپریم پاور ہونے کا پُرشکوہ محل دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا۔
اس کے بعد کی کہانی دراز ہے۔۔۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ امریکیوں کے سارے خدشات درست ثابت ہوئے۔ ایران نے اس RQ-170 ڈرون کو اپنے ٹی وی پر بالکل اصل حالت میں دکھایا۔۔۔ اس کے بعد اس کو روس کے حوالے کر دیا۔۔۔ وہاں سے اسے چین پہنچایا گیا اور ان دونوں ممالک نے اپنے ہاں اس کی ریورس انجینئرنگ کرکے نہ صرف سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا سارا سبق ازبرکر لیا بلکہ اس میں نصب آلات اور سٹیٹ آف دی آرٹ پرزوں کو اپنے ہاں ڈویلپ کر لیا۔

اس ڈرون میں جو دھاتیں استعمال ہوئی تھیں ان کے مرکبات کو بھی نقل یا دریافت کر لیا گیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ خود ایران نے اپنے ہاں اس RQ-170کی ہوبہو کاپی تیار کرلی اور اس کے ٹرائل مکمل کرکے امریکیوں کو دکھا دیا کہ اب یہی ڈرون، درجنوں اور سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے ہاں بھی بنائے جا رہے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ ایران نے اپنے دیرینہ دوست شمالی کوریا کو بھی اس کا تمام ڈیٹا فراہم کر دیا۔ اس کے صدر کم جونگ کو تو خدا ایسا موقع دے۔

اس کے سائنس دانوں نے جوہری بم اور جوہری بم بردار بین البراعظمی (ICBM) میزائل بنانے میں دیر نہ لگائی۔ اب ایران ساختہ اسی طرح کے درجنوں ڈرون، سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کے حوالے کر دیئے گئے ہیں جو ان کے ٹرائل کرکے اسرائیل کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ اسی ٹیکنالوجی سے لیس ایران نے اپنے کئی اور ڈرون بھی تیار کر لئے ہیں جن میں قاہر۔ 313، باور۔373اور فقر۔90بہت معروف ہیں۔
میں نے یہ چند حروف اسی لئے قلم بند کئے ہیں کہ قارئین کو معلوم ہو کہ ایرانیوں نے اپنے تیل کو دیگر عرب ملکوں کی طرح ضائع نہیں کیا۔ ان کی ڈیفنس انڈسٹری رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی ہے اور سب سے بڑی بات ان کی وہ افرادی قوت ہے جو جدید وار ٹیکنالوجی اور اس کے کیف و کم سے آگاہی پا چکی ہے یا پا رہی ہے۔
ایرانی آرمی کے چیف، میجر جنرل محمد باقری جو پاکستان کے تین دنوں کے دورے سے کل ہی واپس گئے ہیں، انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے جو بات چیت کی ہوگی اور افغانستان میں موجود امریکی پشت پناہی سے لیس داعش کے قلع قمع کے لئے جو پلان مرتب کئے ہوں گے، وہ کتنے حوصلہ افزاء اور دور رس امیدوں پر استوار ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -