سیاسی اپ سیٹ کے لئے تیار ہوجائیں
میاں نواز شریف اور اُنکی صاحبزادی کی لند ن سے واپسی پر جس قسم کی ریلی کی توقع تھی ۔ عوام کو ویسی ریلی نظر نہیں آئی۔ مُسلم لیگ(ن) قیادت کو اِس پر سخت مایوسی ہوئی ہے لیکن وُہ شکست کوتسلیم کرنے کی بجائے وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ مُسلم لیگ ن کی قیادت مُطابق نگران حکوتوں نے مُسلم لیگ کے کار کنوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے۔ اُن کو گھروں اور تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ راستوں پر ناکہ بندی کی گئی۔ آنسو گیس کے گولے برسائے گئے۔ با الفاظ دیگر، نگران حکومت نے مُسلم لیگ کی مقبولیت سے خائف ہو کر اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو خوش کرنے کے لئے ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔
نگران حکومت مُسلم لیگ ن کی قیادت کے الزامات کا جواب دے چُکی ہے۔ نگران حکومت کے ذُمہ داران کے مُطابق، مُسلم لیگ نے ریلی نکالنے کے لئے حکومت سے با ضابطہ اجازت نہ لی تھی۔ علاوہ ازیں، دفعہ ۱۴۴بھی نافذ تھی۔ نگران حکومت نے عوام کی جان و مال کی محفاظت کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کیں تاکہ شر پسند اِس غیر قانونی ریلی کی آڑ میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے گریز کریں۔ اس لئے نگران حکومت نے اپنے فرایض کو نبھاتے ہوئے معقول انتظامات کئے تھے۔ شہر کو کنٹینروں سے بند نہیں کیا تھا۔ ائیر پورٹ کو جانے والے راستوں کو کھول دیا گیا تھا۔ لیکن حکومت کسی بھی دہشت پسندانہ کارروا ئی کو روکنے کے لئے چوکس تھی۔ حکومت اپنے روئیے میں غیر جانبدار تھی اور اپنے فرائض ایمانداری اور ذمہ داری سے نبھانے کے لئے اُٹھائے گئے حلف کی ہر حالت میں پاسداری کرنیکے لئے تیار تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو ہنگامہ آرائی سے روکنے کے لئے نگران حکومت نے انتظامات کئے تھے۔ ان سارے انتظامات کا مطلب قوم کے جان و مال کی حفا ظت تھا ۔مُسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی ناکامی کو چھُپانے کے لئے الزام نگران حکومت کے سر تھوپ دیا ہے۔ ایسی الزامات کی توقع ہر نگران حکومت کو ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر سیاسی پارٹی نگران حکومت کو دباؤ میں لانے کے ایسے حربے استعمال کرتی ہے۔ شہباز شریف کی معروف ریلی ائیر پورٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ اسکی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کے میاں شہباز شریف دل سے نہیں چاہتے تھے کہ نگران یا وفاقی حکومتوں سے غیر ضروری ٹکراؤ ہو۔ نگران حکومت کے لئے ا من و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے۔ قتل و غارت ہو۔حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں۔ وُہ فوج، عدلیہ، اداروں اور مقتدرہ کے اعلیٰ اہل کاروں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وُہ اپنے بڑئے بھائی کے اندازِ سیاست سے بہت مُختلف ہیں۔ وُہ بغاوت کی بجائے افہام تفہیم سے مسائل کو حل کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ اور اُن کا بیانیہ اپنے بڑے بھائی سے قطعی مُختلف ہے۔ وُہ حکو مت کے لئے دردِسر نہیں بننا چاہتے۔ کیونکہ وُہ خواہاں ہیں کہ حکومتی حلقوں میں اُنکو سنجیدہ سیاست دان کے طور پر لیاجائے۔ اب وُہ مُسلم لیگ ن کے رسمی صدر ہیں اُن کے بڑے بھائی اور بھتیجی اڈیالہ جیل میں طویل قید کی وجہ سے پابند سلاسل ہیں اُنکی ضمانت اور فوری رہائی کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ انہیں الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے باہمی مفاہمت کے اشد ضرورت ہے۔ عوام اور سیاست دان مُسلم لیگ ن سے اُوب چُکے ہیں۔ نواز شریف کا سخت اور باغیانہ لہجہ مُسلم لیگ کی سیاست کو مزید نُْقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ائر پورٹ پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ علاوہ ازیں، انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ عوام اُنکے ساتھ نہیں۔ اس لئے انہوں نے کمال ہوشیاری سے تقریروں پر اکتفا کرتے ہوئے ریلی کو ختم کر دیا۔
ن لیگ کے عقاب رانا ثناء، خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے لیڈر بھی اپنے جلوسوں کے ہمراہ ائر پورٹ پر نہیں پہنچ سکے۔ جس سے نوازشریف اور مریم نواز کو سخت مایوسی ہوئی۔ اسی لئے نواز شریف نے بغیر کسی مزاحمت کے گرفتاری دینے میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔ لیکن جیل میں جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی سیاسی سر گرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ وُہ جیل سے سیاسی بیانات داغ رہے ہیں۔ جیل میں اُنکو ،اُنکی صاحزادی اور داماد کو ہر قسم کی سولتیں میسر ہیں لیکن پھر بھی اُنہیں گلہ ہے کہ اُنکو اُنکے درجے کے مُطابق مراعات نہیں دی جا رہی۔ اُنکو اپنے گھر سے راشن اور کپڑے لانے کی اجازت ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن دیکھنے کی سولہت حاصل ہے۔ تینوں مجرموں کو سیل فون مہیا کر دئے گئے ہیں۔ طبی معائنے کے لئے تین ڈاکٹروں کی ٹیم صُبح و شام موجود رہے گی۔ یعنی کہ ہر قسم کی سولہت اُنکو باہم پہنچائی جا رہی ہے۔وُہ برائے نام قیدی ہیں ۔ وہُ استحقاق سے زیادہ سولہتیں حاصل کر رہے ہیں۔ وُ ہ سیاسی قیدی ہرگز نہیں بلکہ کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے قید ہوئے ہیں۔ اُن سے ایسا امتیازی سلُوک دوسرے بد عنوانی میں گرفتار شُدہ لوگوں سے سراسر زیادتی ہے۔ باپ، بیٹی اور داماد مُلک کی رسوائی کا با عث بنے ہیں۔ انہوں نے مُلک کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لُوٹا ہے۔ اُن کو ایسی مراعات دینا کسی بھی لحاظ سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ٹیکس گزاروں کے پیسے کو مُلک لوٹنے والوں پر خرچ کرنا قومی جُرم ہے۔ ایسی مراعات دے کر ہم مجرموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جو کہ دوسرے قیدیوں سے زیادتی کے مترادف ہے۔
اخباری ا طلاعات کے مُطابق شہباز شریف نے اپنی والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ جیل میں اپنے بڑے بھائی نوازشریف سے مُلاقات کی ہے۔ سُنا ہے کے نواز شریف نے اپنے بھائی سے کامیاب ریلی نہ نکالنے کی وجوہات دریافت کی ہیں او ر اپنی والدہ کی موجودگی میں شہباز شریف کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مُطابق دونوں بھائیوں کے درمیان ذہنی طور پر مزید دُوری ہو گئی ہے۔ نواز شریف کو بد گُمانی ہے کہ شہباز شریف نے اپنی سیاسی عزایم کی وجہ سے میاں نواز شریف اور اُنکی بیٹی کو دھوکا دیا ہے۔ اس کے علاوہ مُسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت کو اس بات سے بھی جھٹکا لگا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز نے اُنکی ا پپیلیں سُننے کے لئے ۳۰ جولائی کی تاریخ دی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مریم اور نواز شریف الیکشن کی مہم میں زیادہ سوُد مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ شہباز شریف انتظامی طور پر بھلے نواز شریف سے زیادہ تیز اور ذہین ہو سکتے ہیں لیکن عوام میں نواز شریف کی ہی مقبولیت ہے۔ تاہم اُن کی قدرے معتدل سیاسی پالیسیاں حکومتی اعلیٰ عہدے داروں کو پسند ہیں۔ سیاسی لوگ شہباز شریف کو نواز شریف سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عوام کو بدھو بنانے کے لئے یہ دونوں بھائی ناراضی کا ناٹک کرتے ہیں۔ انکے سیاسی مُفادات اور افکار ایک جیسے ہیں۔ انکی ناراضگی حقیقی نہیں ہے۔ یہ دونون بھائی ابہام پیدا کرکے لوگوں کو اُلجھائے رکھتے ہیں۔ والدہ کے سامنے بھا ئی کو ڈانٹنا اور اسکی سر خیاں اخبارات نے چھپوانا ایک حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی سے عوام کے دلوں میں نواز شریف اور مریم نواز کے لئے ہمدردی اُبھارناہے۔ لیکن اب کی بار ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ اپنا ووٹ بینک کھو رہی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں ر کھنی چاہیے کہ مُسلم لیگ کے سحر کو آسانی سے توڑنا سہل نہ ہو گا۔ عوام حکومت اور انداِ زسیاست میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔وُہ پرانے سیاستدانوں کی سیاست سے اُکتا گئے ہیں۔ انھیں مُلک کے ہر شعبہ میں نمایاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عمران خان تبدیلی کی علامت بن سکتے ہیں لیکن یہ اتنا آسان ہرگز نہ ہو گا۔
تحریک انصاف داخلی انتشار کا شکار ہے۔لوٹے اُن کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ عمران خاں کو لوٹوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاہور میں مُقا بلہ مُسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔باقی سیاسی پارٹیاں شائد کوئی اہم سیٹ حاصل کر سکیں۔ جماعت اسلامی کی چند ایک مخصوص سیٹیں لاہور میں موجود ہیں۔تاہم جماعت اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔ حالیہ انتخابات کے نتائج بہت ساری سیاسی پارٹیوں کے لئے حیران کُن ہوں گے۔ سیاسی اپ سیٹ کے لئے ہم سب کو تیار رہنا ہوگا۔