مہنگائی کے نئے سونامی کی آمد آمد

مہنگائی کے نئے سونامی کی آمد آمد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کر دیا ہے، نئی شرح13.25فیصد ہو گئی ہے، جو آٹھ سال میں سب سے زیادہ ہے۔ نئی شرح سود کا اطلاق17جولائی سے ہو گا،یعنی اس روز سے جب دو ماہ کے لئے نئی زری پالیسی کا سٹیٹ بینک کے گورنر نے اعلان کیا۔سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی اور ہدف سے زیادہ،یعنی11سے 12فیصد تک رہے گی، انہوں نے کہا شرح سود میں اضافے کا فیصلہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں حالیہ ردوبدل کے باعث کیا،اُن کا خیال تھا کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے عوام اپنی بچتیں روپے میں رکھنے کی جانب راغب ہوں گے اور قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو فائدہ پہنچے گا،انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ شرح سود میں اضافہ سے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں میں بددلی پیدا ہو گی اور سرمایہ کاری میں کمی واقعہ ہو گی۔اُن کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال (2020-21ء) میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہو گی۔حکومت نے سٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سٹیٹ بینک کے گورنر نے رواں مالی سال میں تو مہنگائی بڑھنے کی خبر دی ہے،لیکن آئندہ مالی سال میں وہ مہنگائی کم ہونے کی توقع رکھتے ہیں،گویا پورے ایک سال تک تو عوام مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پستے رہیں گے۔روپے کی قدر میں کمی اور تنخواہوں کی حقیقی قدر کم ہو جانے کی وجہ سے انہیں جس عذاب سے گزرنا پڑ رہا ہے اس میں ابھی پورا ایک سال تو لازماً گزرے گا، اس کے بعد جو زندہ بچیں گے وہ شاید مہنگائی کم ہوتے ہوئے بھی دیکھ لیں، دُنیا امید پر قائم ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے چند ماہ میں افراطِ زر15فیصد تک بڑھ جائے گا، کیونکہ نئے کرنسی نوٹ چھاپنے،نئے قرضوں کے حصول اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے اتنا اضافہ یقینی ہے، افراطِ زر میں اضافے کا مطلب بھی سادہ الفاظ میں مہنگائی میں اضافہ ہی ہے، لوگ جو اشیائے ضرورت آج جس قیمت پر خرید رہے ہیں، اگلے چند ماہ میں انہیں ایسی ہی اشیا کے لئے15فیصد زائد ادائیگی کرنا ہو گی۔ حکومت نے جو اندرونی قرضے لے رکھے ہیں، ان کا حجم بھی بڑھ جائے گا اور آئندہ قرضے بھی مہنگے ملیں گے۔
گورنر سٹیٹ بینک نے امید ظاہر کی ہے کہ لوگ اپنی بچتیں اب قومی بچت کی سکیموں میں لگائیں گے، جس پر انہیں پہلے سے زیادہ منافع ملے گا، لیکن کیا مہنگائی کی نئی لہر اس سارے منافع کو بے اثر نہیں کر دے گی،پھر یہ ہے کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی ہوگی،کیونکہ صنعت کار عموماً بینکوں ہی سے سرمایہ لے کر انویسٹ کرتے ہیں،جس کے لئے اب انہیں پہلے سے زیادہ ادائیگی کرنا ہو گی،اس طرح ان صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی، جن میں بینکوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور مہنگائی کا ایک نیا چکر شروع ہو کر مکمل ہو گا،جس سے معیشت و صنعت پر بھی بڑے اثرات مرتب ہوں گے، جب لوگوں کو بینکوں میں سرمایہ رکھ کر آسان منافع ملے گا تو انہیں کیا ضرورت ہو گی کہ وہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کا سوچیں جہاں ایک طویل عمل کے بعد پیداوار شروع ہوتی ہے،جب تک کوئی صنعت پیداوار دینا شروع کرے گی تو سب سے پہلے تو صنعت کار کو وہ منافع الگ کرنا ہو گا جو اسے بینک کے سرمایہ پر ادا کرنا ہو گا،پھر اس کے بعد وہ اپنے منافع کا حساب کرے گا، مہنگی بجلی اور مہنگی گیس کے ہوتے ہوئے کیا وہ اتنا منافع کمانے کے قابل بھی ہو گا یا نہیں،ایسے میں صرف وہی صنعتکار میدان میں رہ جائیں گے، جو صنعتوں سے زیادہ منافع کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور سرکاری حکام کو ”مینج“ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،نئے سرمایہ کار اس میدان میں داخل ہونے سے گھبرائیں گے۔
ایف بی آر کی نئی کڑی شرائط بھی راستے میں حائل ہوں گی،اِس لئے جس کے پاس پیسہ ہے وہ بچت سکیموں میں لگا کر آسان منافعے کے حصول کو ترجیح دے گا۔ اگر نئی صنعتیں نہیں لگیں گی تو لوگوں کو روزگار میسر نہیں ہو گا، بیروز گاری ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو7فیصد کے لگ بھگ ہو،جس کا اگلے پانچ سال تک تو خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا، ایسے میں بیروزگاری کے خدشات زیادہ ہیں اور غربت میں اضافے کے امکانات بھی بڑھیں گے۔ دس سے پندرہ بڑے مینو فیکچرنگ سیکٹروں کی پیداوار منفی میں چلی گئی ہے، کھاد، کیڑے مار ا دویات اور دوسرے زرعی مداخل مہنگے ہونے کی وجہ سے زرعی پیداوار بھی کم ہو رہی ہے اور کئی سال سے جو فصلیں مسلسل اضافے میں جا رہی تھیں وہ بھی اب کمی کا شکار ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نئی زری پالیسی سے آئی ایم ایف کی ہدایات ہی جھلکتی نظر آ رہی ہیں، موجودہ شرح سود میں کسی قسم کے نئے کاروبار کی امید عبت ہے، حکومت نے دس ماہ میں ریکارڈ قرضے لئے ہیں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پرانے قرضوں کا حجم بھی بڑھ گیا ہے، ایسے میں جب شرح سود میں اضافہ ہو گا تو صنعت کاری منافع بخش کاروبار کہاں رہ جائے گی؟
سٹیٹ بینک کے گورنر نے بتایا کہ آئندہ دو تین ماہ میں گیس، بجلی اور دوسری یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا،یہ اضافہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور جو شرائط سامنے آئی ہیں اُن میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت وقتاً فوقتاً گیس اور بجلی کے ریٹ بڑھاتی رہے گی۔ یہ جاننے کے لئے کسی افلاطونی دانش کی ضرورت نہیں کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھیں گی، تو پیداواری لاگت میں بھی لامحالہ اضافہ ہو گا۔اگر اشیائے پیداوار مہنگی تیار ہوں گی تو مقامی مارکیٹ میں بھی مہنگے داموں میں فروخت ہوں گی اور اگر یہ اشیا برآمد کے لئے تیار کی جا رہی ہیں، تو عالمی منڈی میں ان مہنگی اشیا کے خریدار بھی کم ہو جائیں گے اور درآمد کنندگان ان ممالک سے رجوع کریں گے، جہاں سے اُنہیں یہ اشیا نسبتاً سستی دستیاب ہوں گی ایسے میں ہم برآمدات میں اضافے کی جو امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ کیسے پوری ہوں گی،حالانکہ روپے کی قیمت میں کمی کے جو فوائد گنوائے گئے تھے ان میں سرفہرست یہ تھا کہ روپے کی قدر کم ہونے سے برآمدات بڑھیں گی،لیکن فی الحال تو مہنگائی کا نیا سونامی ہی نظر آ رہا ہے،جس کا ”استقبال“ کرنے کے لئے عوام و خواص کو تیار رہنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -