غربت مکاو مہم،مواخات مدینہ کی ضرورت! 

  غربت مکاو مہم،مواخات مدینہ کی ضرورت! 
  غربت مکاو مہم،مواخات مدینہ کی ضرورت! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 رواں مہینہ حج کا ہے۔ مناسک حج میں سے ایک رکن قربانی بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی سب سے زیادہ قیمتی چیز قربان کرنے کا خواب آیا، اس میں کوئی واضح حکم نہیں تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کرو اور نہ ہی یہ حکم تھا کہ کب قربان کرو حضرت ابراہیم علیہ السلام یقینا سوچتے ہوں گے کہ وہ کون سی چیز ہے جس کو قربان کیا جائے اسی سوچ و بچار میں پھر خواب آیا جس میں پہلے والا حکم ہی تھا، حضرت ابراہیم اس نتیجے پر پہنچے کہ سب سے زیادہ قیمتی چیز میرا نوجوان بیٹا ہی ہے۔ اولعزم   پیغمبر ابراہیم ؑنے حکم الٰہی کا ذکراپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کیا، جو خود بھی ایک نبی ہیں۔توبیٹے نے کہا کہ حکم خدا کی تعمیل میں وہ حاضر ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے دنبہ بھیج کر اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچا لیا۔ میں قربانی کے اس واقعہ کو ہجرت نبوی سے ملا کر پیش کرنا چاہتا ہوں اوروطن عزیز کے علماء، تاجر، صنعتکار، سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے ریاست مدینہ کے حوالے سے اقدام کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ایک بڑی قربانی نبی پاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت ہے  وہ لوگ جو مکہ میں گھر بار، رشتہ دار، اورموثر قبائل رکھتے تھے۔،جب مدینہ پہنچے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ سید المرسلین نے انقلابی کام کیا اور انصار و مہاجرین کے درمیان معاہدہ مواخات کا حکم دیا کہ جو انصار مدینہ ہیں وہ مکہ سے مہاجرین میں سے ایک مہاجر کو اپنا بھائی بنا لیں،ان کی ضروریات پوری کریں اور جائیداد میں سے حصہ بھی دیں جن کے پاس مکان نہیں تھا،انہیں مکان دیا بلکہ خانگی زندگی میں بھی مدد کی۔


مواخات مدینہ کو سامنے رکھتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں، متوسط طبقہ بھی پس کررہ گیا ہے حکمران عوام اور ملک کی بہتری کے لئے دربدر قرض مانگ رہے ہیں جو بڑی کڑی شرائط پر بھی نہیں مل رہا۔ میں اس حوالے سے ریاست مدینہ، فلاحی ریاست،اور اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ باہر سے بھیک مانگنے والی حکومت کو مجبور نہیں ہونا چاہیے،بلکہ حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابتدائی معاہدہ مواخات سامنے رکھتے ہوئے نادار، کمزوراور پریشان عوام کے لیے اپنی اپنی سطح سے بڑھ کر پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے حضور کی سنت پر عمل کریں اور اس کا آغاز پاکستان کا حکمران طبقہ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان خود اپنے آپ سے کریں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سابقہ حکمران ایک دوسرے پر مبینہ طور پرلوٹی ہوئی دولت بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں، وہ واپس لائیں۔یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ اس بارے کیا فیصلہ کرتے ہیں،لیکن عوام کا مطالبہ ضرور ہے کہ سیاستدان جس ملک پر حکومت کرتے ہیں،اپنے بچے اور پیسے بھی وہیں رکھیں لیکن ابھی اگر وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتے تو الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی میں جو اثاثے انہوں نے ظاہر کئے ہیں ان میں سے کچھ حصہ تو قومی خزا نے میں دینے کا اعلان کریں،تاکہ ہوشربا مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کے ریلیف کے لئے استعمال کیا جائے۔


آصف علی زرداری، میاں نواز شریف،بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف،عمران خان، جہانگیر خان ترین اور دیگر رہنماؤں کے اثاثہ جات کی فہرست الیکشن کمیشن میں موجود ہے یہ اثاثہ جات انہوں نے پاکستان ہی سے کمائے ہیں، عوام ا نہیں اپنا حکمران بنانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمابھی ظاہر کردہ اثاثوں کاکم از کم دس فیصد قومی خزانے میں جمع کروانے کا اعلان کریں، اسی طرح قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبران بھی مواخات مدینہ کی پیروی میں ریاست مدینہ کی طرف قدم بڑھائیں  غریبوں اور ناداروں کا مشکل وقت میں ہاتھ بٹائیں۔ یقینا یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہوگا غریب عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے، صنعت کار،نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان جو اربوں کھربوں روپے کما رہے ہیں۔وہ آج ملک اورغریبوں کے لئے بھی قربانی دیں، ہمارے بڑے بڑے ڈیویلپرز بحریہ ٹاون،ڈی ایچ اے اور دیگربھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ آنے والے وقت میں ہم کسی دوسر ے ملک،مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر بینکوں کے قرض سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔اس طرح قوم کوتسلی بھی ہو گی کہ ان پر حکومت کرنے والے اقتدار کے لئے ہی سیاست نہیں کرتے بلکہ انہیں ملک کی بدحالی اور عوام کی غربت کا بھی احساس ہے تو انشاء اللہ ہمارے ملک کا قرضہ کافی حد تک اتر جائے گا، عوام کی خوشحالی کا سفر بھی شروع ہو جائے گا۔ 
اسی طرح صنعت کار اور اونچاکاروباری طبقہ بھی اس نیک کام میں شامل ہو جائے  تو مجھے امید ہے کہ پاکستان کے عوام کے لئے  جن پر مشکلات ہیں  آسانیاں پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی غریب اور محکوم طبقے کو ریلیف ملے گا۔ اگر ہم نیچے چلتے جائیں تو ہم اپنے اردگرد لوگ، اپنے ملازمین، اپنے محلے گلی میں رہنے والے غریب عوام کا احساس کرنا شروع کر دیں اور ان کو زکوٰۃ و خمس،صدقات، خیرات اور عطیات ہی دینا شروع کر دیں اور اپنے اردگرد غریبوں کی ضروریات پوری کرنا شروع کر دیں تو میر ا خیال ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہیں رہے گا کم از کم ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی۔


یقینا کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے نجات، قرضے اتارنے، اورمعاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک نعرہ ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کے نام سے بھی لگایا گیا تھااس عنوان سے بینکوں میں بہت زیادہ رقم اکٹھی بھی ہوئی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق غریب قوم کی خواتین نے اپنے زیورات تک فروخت کرکے اور طلباء نے اپنی جیب خرچ سے قرض اتارنے کی مہم میں حصہ لیا،تاجروں نے پیسے جمع کروائے۔پھر پتہ نہیں چلا کہ پیسہ کتنا اکٹھا ہوا اور اس وقت وہ پیسہ کہاں ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ڈویلپمنٹ فنڈ اکٹھا کیا گیا اس کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے نہیں ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے دور حکومت میں بھی ڈیم کی تعمیر کے نام سے عوام سے فنڈز کی اپیل کی گئی اور لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق پیسے بینکوں میں جمع بھی کروائے لیکن اس کا بھی پتہ نہیں کہ اب تک کتنی رقم جمع ہو چکی ہے اور وہ پیسہ کہاں ہے؟ان فنڈزکا بھی حساب قوم کے سامنے لایا جائے اور غربت مکاؤ مہم میں صرف کیا جائے۔ اس طرح وقت آگیا ہے کہ اب حکمران طبقہ قربانی دے،عوام پر خرچ کرے، ورنہ جس تیزی سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور غریب پس رہا ہے تو حالات سری لنکا جیسے ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -