سیاسی خود کشی

 سیاسی خود کشی
 سیاسی خود کشی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اپنا اقتدارختم ہوتا دیکھ کر عمران خان نے امریکی سازش کا فسانہ گھڑ  کر سیاسی شہید بننے کی کوشش کی تھی سپریم کورٹ نے اس میں سے ”شہادت“ نکال باہرپھینکی ہے اور حالیہ فیصلہ کے بعد یہ سیاسی خود کشی میں تبدیل ہو چکی ہے، عمران خان خود بھی اپنے اس بھونڈے بیانیہ کی شکست پر پاگل پن کی حد تک پریشان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ میں موجود اپنے نمائندوں کے ذریعہ انڈر سیکرٹری خارجہ ڈونلڈلو سمیت بائیڈن انتظامیہ سے معافی تلافی کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں۔عمران خان کی جانب سے بھجوائے گئے پیغامات کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ میں آپ کی بھی وہی خدمت کرتا رہوں گا جو ٹرمپ انتظامیہ کی کرتا تھا، یعنی ”ساڈے لائق کوئی ہور خدمت“۔ بائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک بھجوائے گئے ”محبت ناموں“کا کوئی جواب نہیں دیاہے غالباًً اس کا زیادہ فوکس آج کل اسرائیل سعودی عرب تعلقات شروع کرانے یا پھر ایران کی طرف ہے،اس لیے امریکہ کی طرف سے رسپانس نہ دیکھ کر عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی مقتدرہ کی طرف کر لیا ہے۔فواد چوہدری ڈراتے ہیں کہ آئین شکنی پر اگر آرٹیکل 6 لگنے شروع ہو گئے تو رسیاں کم پڑ جائیں گی، یعنی پاکستان میں آئین توڑنے کی کھلم کھلا اجازت دے دی جائے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہنما مولانا حمد اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ریڈ لائن کراس کر لی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ریڈ لائن تو چھوٹا لفظ ہے، عمران خان وہ آخری لائن بھی کراس کر چکے ہیں جس کے آگے کھائی ہوتی ہے اور اگر فوری بریک نہ لگائی جائے تو کھائی میں گرنا یقینی ہوتا ہے۔


آسٹریلیا کے (سابق)وزیراعظم ٹونی ایبٹ جب 2015ء میں سیاسی طور پر بری طرح گھر گئے تو پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کلائیو پامر نے اپنی جوشیلی تقریر میں کہہ دیا کہ وزیراعظم ٹونی ایبٹ خود کشی کرنے جا رہے ہیں، ظاہر ہے اس پر بہت شور شرابا ہوا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا مطلب سیاسی خود کشی تھا۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں سیاسی خود کشی کی اصطلاح اٹھارویں صدی سے استعمال ہو رہی ہے۔جب امریکہ کی جنگ آزادی چل رہی تھی تو اس کی ہینڈلنگ پر اس وقت کی اپوزیشن نے برطانوی حکومت کے اقدامات کو سیاسی خود کشی کہا تھا (جو بعد میں درست ثابت بھی ہوا)۔ اسی طرح جب لارڈ کیسل رے کے حکم پر آئرلینڈ کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے قتل عام کیا گیا تو لارڈ بائرن نے اپنے مقالہ Don Juan میں اسے سیاسی خودکشی کہا اور عظیم شاعر پرسی شیلے نے Masque of Anarchy جیسی شہرہ آفاق نظم لکھی تھی۔ عمران خان بہت تیزی سے سیاسی ہارا کیری کی طرف جا رہے ہیں اورہر گذرتے دن کے ساتھ ان کی ذہنی کیفیت میں ربط کا فقدان قابل رحم حد تک بڑھتا جا رہا ہے، کبھی وہ یو ٹرن کے فضائل بیان کرتے ہوئے جرنیلوں کو بھی اپنی طرح یو ٹرن لینے کا مشورہ دیتے ہیں جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کی پرانی نوکری پر بحال کر دیا جائے اور کبھی وہ”راز“ افشا کر دینے کی ننگی دھمکیوں پر اترآتے ہیں۔ پاکستانی قوم جانتی ہے کہ ”راز“ وہ تھیلا ہے جس سے بلی کبھی باہر نہیں نکلتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب ایوب خان نے نکالا تو انہوں نے تاشقند کا راز افشا کرنے کی دھمکی دی تھی، اس کے بعد بھٹو صاحب13سال سے زائد زندہ رہے جس میں ساڑھے پانچ سال ان کی حکومت بھی رہی کوئی ”راز“ ہوتا تو افشا ہوتا، وہ تو اس وقت کی فوجی قیادت کو انڈر پریشر لانے کے لیے سٹنٹ تھا۔ یہی حربہ موجودہ وقت کی سیاسی قیادت کو انڈر پریشر لانے کے لیے آج کل عمران خان بھی آزما رہے ہیں، ظاہر ہے اس کا انجام بھی ”تاشقند کا راز“ والا ہی ہوگا۔  


پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کی تاریخ شروع سے ہی ہے۔ دولتانہ اور ممدوٹ،1950ء کی پوری دہائی، ایوب خان اور فاطمہ جناح، سانحہ مشرقی پاکستان،بھٹو اور قومی اتحاد،1990ء کی پوری دہائی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن قدرے گدلے پانی کے ٹب میں گوبر سے بھری بالٹی پہلی بار عمران خان نے الٹی ہے اپوزیشن  اور وزیراعظم کے طورپر جو زبان عمران خان اور ان کی شہہ پر پارٹی لیڈر استعمال کرتے آ رہے  ہیں اس کی مثال پاکستان کیا، پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں عمران خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھاکہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔میں نے اس وقت اپنے کالم میں لکھا تھا کہ عمران خان حکومت فسطائیت کا منبع ہوگی جو بہیمانہ انتقامی کاروائیاں کرے گی اورجب وہ حکومت سے جائیں گے تو انہی پر چڑھ دوڑیں گے جو انہیں اقتدار میں لائے ہیں،بدقسمتی سے یہ دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں۔ اقتدار جانے کے بعد سے عمران خان لگاتار فوجی قیادت،الیکشن کمیشن اور عدلیہ پرتابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں حالانکہ یہی عمران خان کو 2018ء میں اقتدار میں لائے تھے۔ اپنے حالیہ بیان میں عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ بطور وزیراعظم اتحادیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کرتے تھے یہ اتنا بڑا اعتراف ہے کہ اس کے سامنے صدر نکسن کا واٹر گیٹ سکینڈل بھی کھلونے والی واٹر پستول لگتی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر پر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا ہے کہ وہ ہر ہفتہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو ملتے ہیں،یہ ویسا ہی جھوٹ ہے جیسا 35 پنکچر والا تھا اور بعد میں شرمندہ ہوئے بغیر انہوں نے مان بھی لیا کہ وہ جھوٹ تھا۔ عمران خان کی ذہنی حالت پہلے ہی قابل رحم تھی لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے امریکی سازش والے جھوٹے ڈرامہ کو مسترد کر دینے کے بعد اب دو امکانات ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدرہ اورادارے بشمول عدلیہ اورالیکشن کمیشن عمران خان کی گیڈر بھبکیوں سے ڈر جائیں اور دوسرا یہ کہ عمران خان کی سیاست ایسی بندگلی میں پھنس جائے کہ پھر ہر طرح کی ٹکریں مارنے پر بھی باہر نکلنے کا راستہ نہ مل سکے۔ لارڈ بائرن نے بھی اپنے مقالہ میں یہی لکھا تھا کہ سیاسی خود کشی دو طریقوں سے ہو سکتی ہے، پہلا فوری اور دوسرا death by thousand cuts، لیکن آخری انجام دونوں صورتوں میں سیاسی خود کشی ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں واضح ہو جائے گا کہ اگر مقتدرہ اور ادارے ڈرگئے تو پھر فوری کی بجائے دوسرے والا رستہ ہو گا،اس وقت بھی ڈر کا یہ عالم تھا کہ شیلے نے اپنی نظم 1819ء میں Examiner نامی طباعت کے ادارے کو بھیجی تھی لیکن اسے 1832ء تک شائع کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ 

مزید :

رائے -کالم -