یہ کرنی والے!

جب قومیں زوال کی منزلوں میں ہوتی ہیں تو قاعدے ضابطے تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ عزت، شہرت، دولت اور اونچا سوشل سٹیٹس پانے کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک حربہ اوراد و وظائف اور جادو ٹونے کا ہے۔ جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہو، وہاں لالچ اور حسد کو بھی پَر لگ جاتے ہیں۔ غریب ہی امیر سے حسد نہیں کرتا، خود امیر کو اپنے سے اوپر والا امیر ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ حاسد چاہتا ہے کہ اگر کوئی نعمت اسے میسر نہیں۔ تو کسی دوسرے کے پاس بھی کیوں ہو؟.... چنانچہ ہمارے معاشرے کی تقریباً ہر گلی اور ہر محلے میں ایسے ”کرنی والے“ موجود ہیں، جو چند سکوں کے عوض کسی کا گھر اُجاڑنے، کسی کا بسانے، کسی کا کاروبار فنا کرنے اور کسی کو دنوں میں امیر کرنے کے بلند بانگ دعوے لئے بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر بھی نہیں، جو کسی کو جادو ٹونے کے اثراتِ بد سے نجات دلانے کے لئے صرف نوری علم ہی کو واسطہ بناتے ہیں۔
چند سال پہلے کی بات ہے، ایک روز مَیں نے ٹی وی آن کیا تو گوجرانوالہ کے کسی دینی مدرسے کے ایک نابینا طالب علم کا انٹرویو نشر ہو رہا تھا۔ اس سے پوچھا جا رہا تھا، اگر تم پیدائشی طور پر بینا تھے، تو پھر بینائی چلی کس طرح گئی؟ بچے نے جواب دیا، مَیں دو تین سال کا تھا، جب کسی عورت نے اپنے بچے کی صحت یابی کے لئے کہیں سے جادو ٹونا کروایا اور اس بچے کی بیماری مجھ میں یوں منتقل کروا دی کہ مَیں بینائی کھو بیٹھا اور اس عورت کا بچہ صحت یاب ہو گیا۔اس سے زیادہ خوفناک واقعہ مجھے ایک رکشے والے نے سنایا۔ کہنے لگا: ایک روز دو عورتوں نے مجھے نزدیک کے ایک قبرستان تک جانے کو کہا۔ مَیں نے انہیں بٹھا لیا۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں مرغ تھا۔ مَیں نے انہیں منزل مقصود پر اُتار دیا، لیکن مجھے تجسس سا ہوا کہ عین دوپہر کے و قت اِن عورتوں کا قبرستان میں کیا کام!
مَیں تھوڑی دیر اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد دوبارہ وہاں پہنچا ، تو وہ عورتیں جا چکی تھیں۔ مَیں قبرستان میں دس بیس قدم ہی چلا ہوں گا کہ مَیں نے ایک ٹوٹی پھوٹی اور دھنسی ہوئی قبر کے اندر اس مرغ کو بے حس و حرکت پڑا دیکھا۔ آگے بڑھ کر مَیں نے مرغ کو اُٹھایا، تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اُس کی ٹانگوں کو رسی سے آزاد کیا، تو وہ مزید ہوش میں آ گیا۔ مَیں اُسے گھر لے آیا۔ شام کو گھر لوٹا تو بیوی نے کہا: سارا دن گزر گیا، لیکن اس مرغ نے ایک بار بھی بیٹ نہیںکی۔ مَیں نے غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مرغ کی پیٹھ پر تروپے لگے ہوئے ہیں۔ اب مجھے اس مرغ سے خوف آنے لگا۔ مَیں اُسے فوراً ایک عامل کے پاس لے گیا۔ اُس نے وہ تروپے کھولے، تو اندر سے ایک تعویز برآمد ہوا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی، عامل نے بتایا کہ اس عمل کی وجہ سے جس طرح مرغ سسک سسک کر جان دیتا، اسی طرح جس شخص کے لئے یہ عمل کیا گیا تھا، وہ بھی بالکل اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جاتا۔ مَیں مرغ کو وہیں چھوڑ کر گھر لوٹ آیا۔
ان گزارشات کا دراصل فوری سبب اس طرح بنا کہ گزشتہ ہفتے فٹ پاتھ پر پڑے ایک پرانے کتابی ذخیرے سے مجھے ایک بوسیدہ سی کاپی ملی تھی۔ اس کے پہلے پندرہ بیس صفحات پر طرح طرح کے اوراد و وظائف اور عملیات مر قوم ہیں۔کسی بیماری سے نجات پانی ہے تو کن آیات یا الفاظ کا ورد کرنا چاہئے، کوئی شخص یا کوئی چیز گم گئی ہے، تو اس کی بازیابی کے لئے کون سا وظیفہ کارگر ہو گا۔ محبوب کو پانے کے لئے تو کئی اوراد بتائے گئے ہیں، لیکن چند ٹونے ایسے بھی بتائے گئے ہیں، جن سے کسی شخص یا پورے گھر کو برباد کرنا مقصود ہوتا ہے.... یہاں نقش اور اوراد و وظائف کی تفصیل دینا تو مشکل ہے.... البتہ ان کے ساتھ مرقوم عبارتیں اس خیال سے پیش کر رہا ہوں تاکہ قارئین کو اندازہ ہو کہ ہمارا معاشرہ کن اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیجئے چند اقتباسات ملاحظہ فرمایئے!
٭....اس نقش کو کورے شکورے (مٹی کا کورا برتن) میں لکھ کر مرگھٹ میں دفن کرے، عداوت ہو گی۔
٭.... سہہ کا تکلا جس گھر یا محلے میں گارڈ دیں، وہاں لڑائی فساد پیدا ہو۔
٭.... مسان کی راکھ، پرانی مسجد کی مٹی، مہتر کی قبر کی مٹی ملا کر جس گھر ڈال دیں بربادی ہو۔
٭.... اندرائن کے ہر پتے پر ستر حرف دائرہ کے اندر اس طرح پر لکھے اور جس سے عداوت منظور ہو، اس کے گھر میں ڈال دے۔
٭.... دیگر واسطے دشمنی کے یہ نقش لکھے اور نیچے نقش کے نام دشمن کا لکھ کر جس گھر میں رکھے آدمی اور اوس گھر کے بیمار ہو جائیں۔
٭.... دیگر یہ نقش جمعرات کو قبل از طلوع آفتاب لکھے اور اوس گھڑے کے پانی میں ڈال دے، جس گھڑے کا دونوں پانی پیتے ہوں، آپس میں جدائی ہو۔
٭.... دیگر واسطے دشمنی کے اس تعویز کو لکھے، پرانی قبر میںڈال دے، اسی وقت جدائی ہو۔
٭.... دیگر واسطے دشمن کے اس تعویز کو جو کی روٹی پر لکھے اور قند سیاہ اوس میں ملا کے کالے کتے کو کھلا دے، جلد آپس میں جدائی ہو جائے، آزمایا ہے۔ مطلوب کے کپڑے پر لکھ کر اور بتی بنا کر جلائے اس کا مطلوب بے قرار ہو جائے گا۔
٭.... اگر یہ چاہے کہ مطلوب کو دام الفت میں پھنسائے اور اس کو اپنے عشق میں دیوانہ مفتون بنائے۔ ان ناموں کو روزانہ مشک زعفران اور گلاب سے لکھے اور اس کو اپنے پاس رکھے، جب وہ اس کے پاس جائے گا تو وہ دیکھتے ہی بے قرار ہو گا حتیٰ کہ اگر اپنی دیوار میں بھی ہو تو وہ بھی توڑ کر نکل آئے گا۔
٭.... بھاگے ہوئے کے لئے یہ نقش لکھ کر جو کہ ایک طلسم ہے چرخر میں باندھ کر اُلٹا چکر دے، انشا اللہ تعالیٰ بھاگا ہوا واپس آئے گا۔
ان عبارتوں میں ایک جگہ مرگھٹ کا ذکر ہے اور ایک جگہ ایک منتر بھی درج ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان تحریروں کا تعلق قبل از تقسیم کے دور سے ہے۔ عاملوں کے اڈوں پر جاﺅ تو معلوم ہو گا کہ وہاں زیادہ تر غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ جاتے ہیں، البتہ امراءوہاں خود نہیں جاتے، عاملوں کو طلب کر لیتے ہیں اور وہ منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ وہ بیروزگاری، مہنگائی اور طرح طرح کی بیماریوں اور توہمات کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں، بعض کے سینوں میں حسد کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک اڈے کا منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ اسی طرح کے ایک اڈے پر مَیں بیٹھا تھا، جب ایک عورت وہاں آئی، جس کے کپڑے بہت بوسیدہ تھے۔ پاﺅں میں سپنچ چپل تھی، اس نے اپنے دوپٹے کے پلو سے ایک پانچ سو کا نوٹ نکال کر بابا جی کی طرف بڑھایا اور کہا: میرے پاس اب یہی آخری پونجی ہے، ان سے اب ہماری جان خلاصی کروا ہی دیجئے!
کبھی کبھی یوں لگتا ہے، جیسے میرے وطن عزیز پر اسی طرح کی بلائیں مسلط ہیں، جو ہمیں ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتیں۔ ان کے تعویز اور ٹونے دراصل وہ غیر ملکی طاقتوں سے کئے گئے معاہدے ہیں یا وہ امداد کے نام پر سودی قرضے ہیں جو ہماری رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ پھر مجھے منیر نیازی یاد آ جاتا ہے۔ اس نے کتنی خوبصورتی سے اس تلخ حقیقت کو شعر میں ڈھالا ہے:
اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے منیر
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ