پتریاٹہ:میاں نوازشریف اور محکمہ مواصلات کے چودھری الطاف

پتریاٹہ:میاں نوازشریف اور محکمہ مواصلات کے چودھری الطاف
پتریاٹہ:میاں نوازشریف اور محکمہ مواصلات کے چودھری الطاف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ ان دنوں کی بات ہے جب غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں منعقدہ الیکشن میں کامیاب ہوکر سندھڑی کے محمد خان جونیجو(مرحوم) ملک کے وزیراعظم تھے اور پنجاب میں وزیراعلیٰ میاں نوازشریف (1985-1990ئ)کی حکومت تھی۔اطلاع ملی کہ وزیراعلیٰ نوازشریف مری جارہے ہیں اور وہاں پتریاٹہ کے مقام پر جلسہ ہوگا ، اس جلسے میں پتریاٹہ کو نئی مری کا درجہ دے کر نئے ترقیاتی منصوبہ کا افتتاح اس طور پر کیا جائے گا کہ پتریاٹہ بھی جلد ہی مری کا حصہ بن جائے۔وہاں پر چیئر لفٹ، بچوں کے پارک، متعدد ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں کی تعمیر کے منصوبے پر بھی بات کی جائے گی اور چیئرمین پی اینڈ ڈی اس کی تفصیل میڈیا کو دیں گے۔مَیں ان دنوں محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کا سربراہ تھا،چنانچہ وہاں پر میڈیا ٹیم کے حوالے سے ذمہ داری مجھے دی گئی اور وزیراعلیٰ کی ٹیم میں لاہور سے بھی ساتھ جانے کا حکم ملا۔ٹیم میں صوبائی محکمہ منصوبہ بندی کے سربراہ کے علاوہ میاں شہبازشریف بھی شامل تھے۔ راولپنڈی میں چونکہ ہمارا ڈویژنل آفس ہے، لہٰذا میڈیا کی ٹیم تو راولپنڈی سے بلوانے کا فیصلہ کیا گیا،جو ظاہر ہے کہ گاڑیوں میں راولپنڈی سے جلسہ کے مقررہ اوقات کے مطابق وہاں سے پہلے ہی روانہ ہوگئی۔
چیف منسٹر اور ان کی ٹیم نے لاہور سے راولپنڈی جہاز میں جانا تھا،جبکہ آگے کا سفر گاڑیوں میں طے ہونا تھا۔موسم سردی کے شروع والا تھا، تاہم ابھی تھوڑی بہت گرمیاں بھی باقی تھیں۔جلسے کے میزبان وفاقی وزیر خاقان عباسی(مرحوم) تھے۔جو ویسے تومحمد خان جونیجو کی کابینہ کا حصہ تھے،لیکن وہ میاں نوازشریف کے بہت ہی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔مری کی ترقی کے حوالے سے میاں نوازشریف نے رات دن ایک کرکے مری کی جو حالت بدلی تھی، اس پر ان کا سارا حلقہ ہی نہیں، سیاحوں سے لے کر راولپنڈی ڈویژن کے سارے لوگ ہی میاں نوازشریف کے گرویدہ تھے۔مری سے راولپنڈی اور راولپنڈی سے مری کا سفر اس قدر محفوظ بنا دیا گیا تھا کہ اب بہت ہی کم حادثات کی خبر آتی تھی۔ویسے بھی نئی سڑکیں بننے اور سڑکوں کے کافی حد تک کشادہ اور ”ون وے“ کرنے کی بدولت سفر کا دورانیہ بھی کم ہوگیا تھا۔اس طرح سے جہاں اس علاقے کے لئے نئی ٹرانسپورٹ چلنے لگی،وہاں کم وقت لگنے کی بدولت کاروبار میں بھی اضافہ ہوا اور لوگوں کا رش بھی بڑھ گیا۔
پتریاٹہ اس زمانے میں مری سے تقریباً ایک دو گھنٹے کی مسافت پر تھا،لیکن نئے منصوبے کے تحت نئی سڑکوں کا جال بچھایا جانا تھا اور وہاں پر بھی ترقیاتی کاموں کی ابتداءہونا تھی۔خیال یہی تھا کہ یہ جگہ آگے چل کر یا تو مری کا ہی صدر مقام ہو جائے گی یا کم از کم اسے اس طرح سے مری میں ضم کیا جائے گا کہ یہ نئی مری کہلائے گی اور اس کا ایک حصہ ہی تصور ہوگی،نئے ہوٹلوں کے قیام، پارکوں کی تعمیر،بچوں کے فن لینڈ وغیرہ بن جانے سے یہ حصہ غیر ممالک میں ایسے ہی قائم کئے گئے پارکوں سے کسی طور کم نہیں ہوگا اور صوبے کا ایک اہم سیاحتی مرکز بن کر ابھرے گا۔چیف منسٹر کا قافلہ جب ہوائی اڈے سے اتر کر گاڑیوں میں پتریاٹہ پہنچا تو تعمیراتی کام کی بدولت آگے سڑک بند تھی اور راستہ بہت ہی کیچڑ والا تھا۔میاں نوازشریف گاڑی سے اُترے۔قافلے کے دوسرے لوگ، جن میں سے بہت سے راولپنڈی ائرپورٹ سے شامل ہوئے تھے، وہ بھی اتر گئے ، ان میں کمشنر راولپنڈی،ڈپٹی کمشنر وغیرہ بھی شامل تھے۔
میاں نوازشریف نے شہبازشریف کو اشارہ کیا اور ہم سب قافلہ کے ساتھ پیدل اوپر کو چڑھائی چڑھنے لگے۔یہ پانی کے نکاس کا ایک نالہ تھا جو اوپر سے بارش کے پانی کو فطری طور پر ہی نیچے لاتا تھا۔وہاں اونچے درختوں کی بہت ہی موٹی جڑیں موجود تھیں اور پتلی گلی جتنے چوڑائی کے حامل اس حصے سے تقریباً تین چار درجن مہمان پیدل اوپر چڑھنا شروع ہو گئے۔ پچاس پچپن برس سے اوپر کے افسروں اور مہمانوں کو کافی دشواری کا بھی سامنا کرنا پڑا، تاہم جب چیف منسٹر کو خود پیدل چڑھائی چڑھتے دیکھا تو قافلے میں شامل ان لوگوں نے بھی تھکاوٹ کا اظہار کئے بغیر چڑھائی شروع کردی۔یہ چڑھائی تقریباً پون گھنٹے سے ایک گھنٹہ تک رہی اور ہم اوپر ٹھیک اس مقام پرپہنچ گئے، جہاں انگریز حاکموں کے دور میں سری نگر سے ایک کیبل لفٹ کے ذریعے کوئلہ اور دوسرا سامان سردیوں کے اس عرصے میں اس کیبل لفٹ کے ذریعے منگوایا جاتا تھا،جب ہر طرف برف جمی ہوتی تھی اور راستے بند ہوتے تھے، یعنی سڑک کا سرے سے کوئی نظام باقی ہی نہیں رہتا تھا۔پتریاٹہ کی عام زمین سے اس کی اونچائی دو تین ہزار فٹ سے کم نہیں تھی،جبکہ سطح سمندر سے اس کی اونچائی مری سے بھی کافی زیادہ تھی۔وہاں پر اوپر دو تین سوگز کے ایک میدان ،بلکہ پارک میں جلسہ گاہ بنائی گئی تھی۔
سہ پہر کو جلسہ شروع ہوا اور شام سے پہلے ختم ہوگیا۔مہمانوں کے لئے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔وہاں صوبائی محکمہ مواصلات کے ایک افسر اور میاں نوازشریف کے ایک قریبی چودھری الطاف بھی موجود تھے، جن کے ذمے جلسے کے بہت سے انتظامات تھے۔انہوں نے بھی وہاں میڈیا والوں سے بات چیت کی۔بہت سی نئی سڑکوں کی، جو شروع ہونے جارہی تھیں ، تفصیل اور نقشے ان کے پاس تھے۔وہ کافی دیر تک ہم سے باتیں کرتے رہے ، ان کے دیگر افسران کی زبانی اس علاقے، کی شکل بدل دینے اور ترقی کے حوالے سے شروع ہونے والے منصوبوں پر بھی باتیں ہوئیں۔چودھری الطاف، میاں نوازشریف کے عزم کی داد دے رہے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ انگریز حاکم بھی یہاں سینکڑوں برس رہ کر اس علاقے یا اس علاقے کے محکوم عوام کی ترقی کے لئے اتنا نہیں سوچ سکے،جتنا میاں نوازشریف نے چیف منسٹر بنتے ہی اپنے چند ابتدائی برسوں میں ہی نہ صرف سوچا ہے، بلکہ اس پر عملدرآمد شروع بھی کرا دیا گیا ہے۔
یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کی حامل تھی کہ اس کے بعد حالات ہی بدل گئے۔خاقان عباسی جو اس علاقے کی ایک مقبول ترین ہستی تھے، اوجڑی کیمپ کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔صدر ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی 29مئی 1988ءکو برطرف کردیا۔ خود ضیاءالحق (17اگست1988ئ) کو طیارہ حادثے میں شہید ہوگئے،تاہم میاں نواز1990ءتک پنجاب کے چیف منسٹر رہے اور اپنے تمام عرصے میں انہوں نے تسلسل کے ساتھ پتریاٹہکے بہت سے منصوبے مکمل کرائے۔ آج بھی محکمہ مواصلات کے چودھری الطاف جواب محکمے سے تو ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں، ان کے منصوبوں اور ان حلقوں میں میاں نوازشریف کی انمٹ مقبولیت کو اپنی نجی محفلوں میں یاد کرکے فخریہ انداز میں میاں نوازشریف کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب منتخب عوامی نمائندوں نے کسی بھی علاقے کی ترقی کے لئے کام کیا ہے، انہیں شہرت اور نیک نامی میں ہمیشہ اچھا ہی نام ملا ہے اور یہی اچھا نام آگے چل کر آنے والی نسلوں میں نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔پتریاٹہ کے جو نئے منصوبے اب صوبائی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہیں، ان میں سڑکوں کے علاوہ ،بچوں کا فن لینڈ اور بچوں کے لئے ایک ٹرین کا منصوبہ بھی موجود ہے۔یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو پتریاٹہکو نیومری کا نام مل جائے گا۔ ٭

یہ ان دنوں کی بات ہے جب غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں منعقدہ الیکشن میں کامیاب ہوکر سندھڑی کے محمد خان جونیجو(مرحوم) ملک کے وزیراعظم تھے اور پنجاب میں وزیراعلیٰ میاں نوازشریف (1985-1990ئ)کی حکومت تھی۔اطلاع ملی کہ وزیراعلیٰ نوازشریف مری جارہے ہیں اور وہاں پتریاٹہ کے مقام پر جلسہ ہوگا ، اس جلسے میں پتریاٹہ کو نئی مری کا درجہ دے کر نئے ترقیاتی منصوبہ کا افتتاح اس طور پر کیا جائے گا کہ پتریاٹہ بھی جلد ہی مری کا حصہ بن جائے۔وہاں پر چیئر لفٹ، بچوں کے پارک، متعدد ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں کی تعمیر کے منصوبے پر بھی بات کی جائے گی اور چیئرمین پی اینڈ ڈی اس کی تفصیل میڈیا کو دیں گے۔مَیں ان دنوں محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کا سربراہ تھا،چنانچہ وہاں پر میڈیا ٹیم کے حوالے سے ذمہ داری مجھے دی گئی اور وزیراعلیٰ کی ٹیم میں لاہور سے بھی ساتھ جانے کا حکم ملا۔ٹیم میں صوبائی محکمہ منصوبہ بندی کے سربراہ کے علاوہ میاں شہبازشریف بھی شامل تھے۔ راولپنڈی میں چونکہ ہمارا ڈویژنل آفس ہے، لہٰذا میڈیا کی ٹیم تو راولپنڈی سے بلوانے کا فیصلہ کیا گیا،جو ظاہر ہے کہ گاڑیوں میں راولپنڈی سے جلسہ کے مقررہ اوقات کے مطابق وہاں سے پہلے ہی روانہ ہوگئی۔
چیف منسٹر اور ان کی ٹیم نے لاہور سے راولپنڈی جہاز میں جانا تھا،جبکہ آگے کا سفر گاڑیوں میں طے ہونا تھا۔موسم سردی کے شروع والا تھا، تاہم ابھی تھوڑی بہت گرمیاں بھی باقی تھیں۔جلسے کے میزبان وفاقی وزیر خاقان عباسی(مرحوم) تھے۔جو ویسے تومحمد خان جونیجو کی کابینہ کا حصہ تھے،لیکن وہ میاں نوازشریف کے بہت ہی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔مری کی ترقی کے حوالے سے میاں نوازشریف نے رات دن ایک کرکے مری کی جو حالت بدلی تھی، اس پر ان کا سارا حلقہ ہی نہیں، سیاحوں سے لے کر راولپنڈی ڈویژن کے سارے لوگ ہی میاں نوازشریف کے گرویدہ تھے۔مری سے راولپنڈی اور راولپنڈی سے مری کا سفر اس قدر محفوظ بنا دیا گیا تھا کہ اب بہت ہی کم حادثات کی خبر آتی تھی۔ویسے بھی نئی سڑکیں بننے اور سڑکوں کے کافی حد تک کشادہ اور ”ون وے“ کرنے کی بدولت سفر کا دورانیہ بھی کم ہوگیا تھا۔اس طرح سے جہاں اس علاقے کے لئے نئی ٹرانسپورٹ چلنے لگی،وہاں کم وقت لگنے کی بدولت کاروبار میں بھی اضافہ ہوا اور لوگوں کا رش بھی بڑھ گیا۔
پتریاٹہ اس زمانے میں مری سے تقریباً ایک دو گھنٹے کی مسافت پر تھا،لیکن نئے منصوبے کے تحت نئی سڑکوں کا جال بچھایا جانا تھا اور وہاں پر بھی ترقیاتی کاموں کی ابتداءہونا تھی۔خیال یہی تھا کہ یہ جگہ آگے چل کر یا تو مری کا ہی صدر مقام ہو جائے گی یا کم از کم اسے اس طرح سے مری میں ضم کیا جائے گا کہ یہ نئی مری کہلائے گی اور اس کا ایک حصہ ہی تصور ہوگی،نئے ہوٹلوں کے قیام، پارکوں کی تعمیر،بچوں کے فن لینڈ وغیرہ بن جانے سے یہ حصہ غیر ممالک میں ایسے ہی قائم کئے گئے پارکوں سے کسی طور کم نہیں ہوگا اور صوبے کا ایک اہم سیاحتی مرکز بن کر ابھرے گا۔چیف منسٹر کا قافلہ جب ہوائی اڈے سے اتر کر گاڑیوں میں پتریاٹہ پہنچا تو تعمیراتی کام کی بدولت آگے سڑک بند تھی اور راستہ بہت ہی کیچڑ والا تھا۔میاں نوازشریف گاڑی سے اُترے۔قافلے کے دوسرے لوگ، جن میں سے بہت سے راولپنڈی ائرپورٹ سے شامل ہوئے تھے، وہ بھی اتر گئے ، ان میں کمشنر راولپنڈی،ڈپٹی کمشنر وغیرہ بھی شامل تھے۔
میاں نوازشریف نے شہبازشریف کو اشارہ کیا اور ہم سب قافلہ کے ساتھ پیدل اوپر کو چڑھائی چڑھنے لگے۔یہ پانی کے نکاس کا ایک نالہ تھا جو اوپر سے بارش کے پانی کو فطری طور پر ہی نیچے لاتا تھا۔وہاں اونچے درختوں کی بہت ہی موٹی جڑیں موجود تھیں اور پتلی گلی جتنے چوڑائی کے حامل اس حصے سے تقریباً تین چار درجن مہمان پیدل اوپر چڑھنا شروع ہو گئے۔ پچاس پچپن برس سے اوپر کے افسروں اور مہمانوں کو کافی دشواری کا بھی سامنا کرنا پڑا، تاہم جب چیف منسٹر کو خود پیدل چڑھائی چڑھتے دیکھا تو قافلے میں شامل ان لوگوں نے بھی تھکاوٹ کا اظہار کئے بغیر چڑھائی شروع کردی۔یہ چڑھائی تقریباً پون گھنٹے سے ایک گھنٹہ تک رہی اور ہم اوپر ٹھیک اس مقام پرپہنچ گئے، جہاں انگریز حاکموں کے دور میں سری نگر سے ایک کیبل لفٹ کے ذریعے کوئلہ اور دوسرا سامان سردیوں کے اس عرصے میں اس کیبل لفٹ کے ذریعے منگوایا جاتا تھا،جب ہر طرف برف جمی ہوتی تھی اور راستے بند ہوتے تھے، یعنی سڑک کا سرے سے کوئی نظام باقی ہی نہیں رہتا تھا۔پتریاٹہ کی عام زمین سے اس کی اونچائی دو تین ہزار فٹ سے کم نہیں تھی،جبکہ سطح سمندر سے اس کی اونچائی مری سے بھی کافی زیادہ تھی۔وہاں پر اوپر دو تین سوگز کے ایک میدان ،بلکہ پارک میں جلسہ گاہ بنائی گئی تھی۔
سہ پہر کو جلسہ شروع ہوا اور شام سے پہلے ختم ہوگیا۔مہمانوں کے لئے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔وہاں صوبائی محکمہ مواصلات کے ایک افسر اور میاں نوازشریف کے ایک قریبی چودھری الطاف بھی موجود تھے، جن کے ذمے جلسے کے بہت سے انتظامات تھے۔انہوں نے بھی وہاں میڈیا والوں سے بات چیت کی۔بہت سی نئی سڑکوں کی، جو شروع ہونے جارہی تھیں ، تفصیل اور نقشے ان کے پاس تھے۔وہ کافی دیر تک ہم سے باتیں کرتے رہے ، ان کے دیگر افسران کی زبانی اس علاقے، کی شکل بدل دینے اور ترقی کے حوالے سے شروع ہونے والے منصوبوں پر بھی باتیں ہوئیں۔چودھری الطاف، میاں نوازشریف کے عزم کی داد دے رہے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ انگریز حاکم بھی یہاں سینکڑوں برس رہ کر اس علاقے یا اس علاقے کے محکوم عوام کی ترقی کے لئے اتنا نہیں سوچ سکے،جتنا میاں نوازشریف نے چیف منسٹر بنتے ہی اپنے چند ابتدائی برسوں میں ہی نہ صرف سوچا ہے، بلکہ اس پر عملدرآمد شروع بھی کرا دیا گیا ہے۔
یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کی حامل تھی کہ اس کے بعد حالات ہی بدل گئے۔خاقان عباسی جو اس علاقے کی ایک مقبول ترین ہستی تھے، اوجڑی کیمپ کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔صدر ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی 29مئی 1988ءکو برطرف کردیا۔ خود ضیاءالحق (17اگست1988ئ) کو طیارہ حادثے میں شہید ہوگئے،تاہم میاں نواز1990ءتک پنجاب کے چیف منسٹر رہے اور اپنے تمام عرصے میں انہوں نے تسلسل کے ساتھ پتریاٹہکے بہت سے منصوبے مکمل کرائے۔ آج بھی محکمہ مواصلات کے چودھری الطاف جواب محکمے سے تو ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں، ان کے منصوبوں اور ان حلقوں میں میاں نوازشریف کی انمٹ مقبولیت کو اپنی نجی محفلوں میں یاد کرکے فخریہ انداز میں میاں نوازشریف کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب منتخب عوامی نمائندوں نے کسی بھی علاقے کی ترقی کے لئے کام کیا ہے، انہیں شہرت اور نیک نامی میں ہمیشہ اچھا ہی نام ملا ہے اور یہی اچھا نام آگے چل کر آنے والی نسلوں میں نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔پتریاٹہ کے جو نئے منصوبے اب صوبائی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہیں، ان میں سڑکوں کے علاوہ ،بچوں کا فن لینڈ اور بچوں کے لئے ایک ٹرین کا منصوبہ بھی موجود ہے۔یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو پتریاٹہکو نیومری کا نام مل جائے گا۔    ٭

مزید :

کالم -