اسلام ہم سے چاہتا کیا ہے؟ (1)
دینی جماعتوں کے کرنے کا کام تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ طے کریں کہ آخر اسلام ہم سے چاہتا کیا ہے؟ ....ہمارے خیال میں تحریکیں برپا کرنے کی بجائے اگر ہم اپنے اندر ایک انقلاب برپا کر لیں تو دنیا میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ اس بڑے انقلاب کی طرف آپ کا پہلا قدم یہ ہو گا کہ آپ اپنی عبادات میں انقلاب لے آئیں۔ ویسے بھی یہ انقلاب لائے بغیر آپ کی عبادات رائیگاں جائیں گی۔ اپنی عبادات کو موثر بنانے کے لئے آپ کو مندرجہ ذیل نو اقدام اٹھانے پڑیں گے:
1۔ہمیں خالصتاً اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے ارادوں اور نصب العین کو اپنا لینا چاہئے اور ہر قسم کی شخصیت پرستی ذاتی مفاد اور بدنیتی و منافقت کو تج دینا چاہئے۔
2۔ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے نصب العین کو اپنا لیں تو پھر ہم کسی غیر اللہ کے مقصد کو اپنا نہیں سکتے۔
3۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم مناجات و عبادات تو اللہ کی کریں ،مگر سیاست غیر اللہ کی۔
4۔ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ہم اللہ کی طرف ان راستوں پر چلیں گے جو ہمارے لئے کھلے ہوں تو وہ ہمارے لئے وہ راستے بھی کھول دے گا ،جو دشمنوں نے ہمارے لئے بند کئے ہوئے ہوں۔
5۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اگر ہم دنیا کی طرف بھاگیں گے تو دنیا ہم سے دور بھاگے گی، جبکہ اگر ہم اللہ کی طرف چلیں گے تو وہ ہماری طرف دوڑتا ہوا آئے گا۔
6۔ہم تزویرات، تدبیرات اور حکمت عملیاں تو بنا سکتے ہیں ،مگر اللہ کے اصولوں کو چھوڑ نہیں سکتے۔
7۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم امریکہ کی مرضی کے بغیر اسلام آباد میں حکومت نہیں کر سکتے تو پھر کیا ہم اللہ کو ناراض کر کے کسی جگہ بھی خوش حال ہو سکتے ہیں؟
8۔یہ تو کبھی نہ سوچیں کہ ہم بیک وقت اللہ اور امریکہ کو خوش کر سکتے ہیں۔ یہ بھی نہ سوچیں کہ ہم امریکہ کو خوش کر کے اسلام آباد میں طاقت حاصل کر لیں گے اور پھر طاقت حاصل کر لینے کے بعد اللہ کو خوش کر لیں گے۔ ایسی آرزومندانہ سوچ نہ تو امریکہ کو پسند ہے اور نہ اللہ کو۔
9۔اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرنے والے کارکن کو چاہئے کہ وہ اپنی سب دنیاوی خواہشات کو تج دے، تبھی وہ بلاخوف غیر اللہ کا مخلص کارکن بن سکے گا۔
مغربیت کا فکری تسلط ہم پر اس قدر ہے کہ ہم اسلام کے فکری نظام کی برکات حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مغرب کا فکری نظام زیادہ تر نظریوں میں تصادم پر مبنی ہے، جس میں ایک یا دوسرے نظریے یا تصور کا چناﺅ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی نظام فکر، افکار کے تصادم پر نہیں، بلکہ ان کے تسلسل پر مبنی ہے۔ اسلامی افکار”یہ یاوہ“ پر نہیں بلکہ ”یہ اور وہ“ کے تسلسل پر مبنی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی افکار میں تناﺅ تو ہے، مگر تصادم نہیں۔ کسی نظریہ کے ایک پہلو کی طرف جھکاﺅ رکھنے والوں کی نظروں میں، اس کا دوسرا پہلو کلی طور پر اوجھل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اسلام کے تصوراتی نظام میں اللہ وراءالوراءبھی ہے اور رگِ جاں سے قریب تر بھی۔ اسلام میں عقل و تفکر بھی ہے اور الغیب بھی، شریعت بھی ہے اور روحانیت بھی ، تقلید بھی ہے اور اجتہاد بھی۔ اس لئے ہمیں ان تصورات پر تصادم کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی غیر ضروری مباحث میں اپنا وقت ضائع کرنا چاہئے۔
ہمارے اکابرین کی مغرب زدہ فکری روش اور یورپی نظریاتی تحریکوں کی طرف ذہنی جھکاﺅ سے ہند و پاکستان کے مسلمان معاشرتی اور روحانی بحران کا شکار ہو گئے، جس سے وہ آزادی کے 65سالوں بعد بھی نکل نہیں پائے۔ ہمارے تمدنی اور معاشرتی ضعف و انحطاط کی بنیادی وجہ دو متضاد فطری روایات ”دین اور آئیڈیالوجی“ کو آپس میں خلط ملط کرنا ہے۔ دین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا ہدف ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہوتا ہے، جس میں امن و امان، صلح و آشتی، محبت و مروت اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ ایسے معاشرے کا دارومدار تعلق باللہ، تزکیہ< نفس، حکمت، رواداری اور اخلاص پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آئیڈیالوجی کا مطمح نظر ایک ابھرتے ہوئے دنیاوی معاشرے کی تشکیل ہوتا ہے، جس کا دارومدار سیاسی تصور، عوامی تنظیم، عسکری جذبے اور عقل کی حکمرانی پر ہوتا ہے۔
دین کا مطمح نظر تصادم سے پاک ایک روادار معاشرے کی تشکیل ہے ،جبکہ آئیڈیالوجی اپنے عالمی نظریے کی بڑی شدومد کے ساتھ حفاظت کرتی ہے اور اس کا مطمح نظر تصادم کے ذریعے کمزوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے، چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ یورپ میں آئیڈیالوجی کا زمانہ شور و فساد اور جنگ و جدل کا زمانہ ہے، جس میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ ان دو متضاد روایتوں کو آپس میں خلط ملط کرنے سے ہمارے تین حیاتی تعلقات مسخ ہو گئے ہیں اور یہ ہیں بندے اور اللہ کے درمیان تعلق، انسان اور انسان کے درمیان تعلق اور انسان اور ماحولیات کے درمیان تعلق۔ عموماً ہم ان حیات بخش تعلقات میں اپنے پورے من و تن کے ساتھ داخل نہیں ہوتے، بلکہ اپنی ذات کی ایک کسر کے ساتھ ہی یہ مقدس رشتے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری اس مجہول کوشش کی وجہ سے ہمارا اللہ کے ساتھ رشتہ جزوی، انسان کے ساتھ مطلبی اور ماحول کے ساتھ استحصالی ہو کر رہ جاتا ہے۔
فہم اسلام کے لئے ہمارا رویہ ضابطہ پرستی کا ہے کہ ہم اس کے سادہ احکام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ دقیق نظریات اور چھپے ہوئے نظاموں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ،جبکہ ہمارے علماءاللہ تعالیٰ کے سادہ سے پیغام کو اتنا پیچیدہ کر دیتے ہیں کہ وہ ہرکس و عام کے فہم سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ اسلام کا سادہ اور عام فہم پیغام حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ نے بھی ہمیں سمجھایا تھا، مگر ہم پھر بھی اس کو سمجھ نہ پائے۔ ہرچندکہ ریاست اسلام کے بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے، مگر قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام سے مختلف ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک نسل ہے، نہ اشتراک زبان، نہ اشتراک وطن اور نہ ہی اقتصادی اہداف کا اشتراک ،بلکہ ہم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی ایک Brotherhood ہیں۔ بقول قائداعظمؒ اسلامی حکومت میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع ریاست نہیں، اللہ کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی راستہ قرآن کے احکام اور اصول ہیں۔
مختلف دینی جماعتوں اور تحریکوں کے مروجہ رویے امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ کو دین کا سچا محافظ خیال کرتی ہے اور ان جماعتوں کے کارکنوں کا خود ستائی و پارسائی کا مغرورانہ رویہ مسلم عوام کو اپنے دین سے دور کر رہا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ مولانا حضرات امت کو متحارب فرقوں میں بانٹ کر ان ہی میں تفرقہ ختم کرنے کے لئے آئے روز آپس میں ملتے بھی رہتے ہیں۔ شاید ہمارے ایسے ہی زعماءکے لئے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے، ان کو گمراہ کرنے کے لئے میری یہ کتاب ہی کافی ہے.... (سورئہ ال عمران: 7).... ان دینی زعماءکا ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں ....(سورة الصف:2 ).... اور عوام سے جھوٹے وعدے فرماکر اپنے آپ کو اور اپنے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں وہ اہداف اور اسباب میں تمیز کرنے سے قاصر رہتے ہیں، مثلاً اس دور میں ان کی اوّلین توجہ ربا کے خاتمے پر مرکوز رہتی ہے ،حالانکہ ربا کا خاتمہ ان کئی طریقوں سے ایک ہے، جن کو ایک عدل و مساوات پر مبنی اسلامی معاشرے کے قیام کے سلسلے میں بروئے کار لانا ہو گا۔(جاری ہے) ٭