شدت پسندوں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی کا وقت آگیا
جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن نے بلوچستان میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلہ پر متفقہ لائحہ عمل بنانے کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے ادھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کوئٹہ کا مختصر دورہ کیا جس کے دوران وہ زیارت بھی گئے چوہدری نثار نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ جو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں وہ صحیح طریقے سے آئیں تو ان سے بات چیت ہوگی اور جو ایسا نہیں چاہتے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا زیارت میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی یادگار ریذیڈنسی کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئٹہ میں طالبات کی بس پر حملہ اور ہسپتال میں دہشت گردی کے واقعات کی ملک بھر میں شدید مذمت کی گئی اور شاید پہلی مرتبہ قومی سطح پر ایسا اتفاق رائے نظر آیا کہ بس اب حد ہوچکی، ان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی ہونا ضروری ہوگیا ہے اور اسی نوعیت کی بات وفاقی وزیر داخلہ نے بھی کی ہے۔
جہاں تک پروفیسر منور حسن کی کل جماعتی کانفرنس والی تجویز کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی اس سے قبل کئی بار ایسی کانفرنسیں ہوچکیں بلکہ اگر سرکاری سطح پر ہوئی تو پھر جماعتی سطح پر بھی منعقد کی گئی حتیٰ کہ قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قرار دادیں بھی منظور کی گئیں مگر یہ سب لاحاصل، کیونکہ تجاویز پر کماحقہ عمل نہ ہوا اور دہشت گردی ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ اب زیارت کی ریذیڈنسی کو تباہ کرکے بی ایل اے کا جھنڈا لہرانے والی واردات کے ذریعے ملکی اساس پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد ذمہ داری بھی قبول کی گئی کیا اب بھی ان حضرات سے اپیل کی جائے گی کہ وہ پہاڑوں سے اتر آئیں ان کی دلجوئی کی جائے گی؟
دوسری واردات ایک ایسی تنظیم نے تسلیم کی ہے جو اس سے قبل بھی کوئٹہ اور دوسرے مقامات پر دہشت گردانہ کارراوئیوں کی ذمہ دار ہے، دونوں واقعات کی نوعیت الگ الگ ہے اور واردات کرنے والے بھی ایک نہیں، ان کے مقاصد بظاہر مختلف ہیں تاہم ذرا غور کیا جائے تو دونوں ہی ملک دشمنی میں ملوث ہیں، اس لئے ان کے ساتھ سلوک بھی وہی ہونا چاہیے اور اب وقت آگیا ہے کہ موثر کارروائی ہو۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی امور پر سب سے مشاورت کے عزم کا اظہار کیا تھا اس لئے بہتر ہوگا کہ کسی گول میز کانفرنس کی بجائے ایک مشاورتی اجلاس بلا لیا جائے جس میں تمام اہم جماعتوں کے سربراہوں کو مدعو کرلیا جائے ایسا اجلاس کسی بھی کل جماعتی کانفرنس سے زیادہ بہتر ہوگا کہ حاضرین کم ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو بات کرنے کےلئے وقت کی شکایت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم ایسا مشاورتی اجلاس جتنی جلد بلاسکتے ہیں بلالیں۔
بلوچستان کے حالات کو درست کرنے کےلئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بنوایا اور پھر محمد خان اچکزئی کو گورنر بھی نامز کر دیا کہ بلوچ عوام کے معاملات بلوچ ہی دیکھیں اختر مینگل کے مصالحانہ رویے اور ان کی جماعت کے الیکشن میں حصہ لینے سے بھی حالات میں بہتری کی توقع تھی لیکن شدت پسندوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
بلوچستان کے حالات میں سرحدی نظام بہت اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ سردار اکبر بگٹی کے صاحبزادے طلال بگٹی ملک میں سیاست کر رہے ہیں، پوتے شاہ زین اعتدال کی راہ دکھاتے ہیں تو دوسرے صاحبزادے براہمداغ بگٹی ملک سے باہر بیٹھ کر شدت پسند تنظیم چلا رہے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں، اس لحاظ سے بلوچستان کے حالات ذرا مختلف ہیں، اسی لئے ترقی پسندوں کی سربراہی میں مخلوط حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی گئیں، لہٰذا اب ان ترقی پسند قوتوں کو بھی سرداری نظام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا، ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان میں کون کیا ہے اور کس سے بات اور کس کے خلاف ٹھوس کارروائی ہو یہ سب مشاورت سے طے ہونا چاہیے تاکہ اس کارروائی کو مکمل حمایت حاصل ہو، جو بھی کرنا ہے جلد کرنا ہوگا۔