الطاف قمر کی یاد داشتیں
روزنامہ ”پاکستان“ میں سابق آئی جی پولیس، پروفیسر چودھری محمد الطاف قمر نے اپنی یاد داشتوں کے حوالے سے پولیس سروس میں آنے اور اس دروان پیش آنے والے واقعات کو بیان کرنا شروع کیا ہے، جو بلا شبہ ایک اچھا اقدام ہے اور روزنامہ ”پاکستان“ کا یہ سلسلہ شائع کرنا بھی ایک اچھا فیصلہ ہے۔ چودھری صاحب کے کالم پڑھ کر جہاں یہ خوشی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کالموں کے ذریعے لوگوں کو پولیس سروس کے دوران پیش آنے والے مسائل، رکاوٹوں اور مختلف سیاست دانوں کی مداخلت کے ساتھ ساتھ ایک محنتی، فرض شناس افسر کی وجہ سے قوم کو ملنے والی آسانیوں اور انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے مایوس ہونے کی بجائے ذمہ دار افسروں تک رسائی کا جذبہ پیدا کرنے، وطن عزیز کے کرپٹ اور مفاد پرست عناصر کے خلاف جنگ کے لئے صف آراءہونے کا حوصلہ بھی ملے گا۔
اس سے قبل ایک فوجی بریگیڈیئر(ر) صولت رضا نے کاکول میں اپنی ٹریننگ کے دوران پیش آنے والے حالات ”کاکولیات“کی صورت میں، کرنل محمد خان نے اپنے تجربات ”بجنگ آمد“ کی صورت میں اور قدرت اللہ شہاب نے اپنے دورِ ملازمت میں پیش آنے والے واقعات اور اپنے روحانی تجربات کو ”شہاب نامہ“ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ دیگر بہت سے ادیبوں نے اپنی یاد داشتوں کو لکھا ہے، حال ہی میں وفات پانے والے ڈاکٹر افتخار احمد مرحوم نے ہی اپنی وفات سے قبل اپنی یاد داشتوں کو ”حیات افتخار“ کے نام سے ترتیب دیا ہے، جو جلد شائع ہو جائے گی۔
چودھری محمد الطاف قمر کی تحریر کی خاص ضرورت اس لئے محسوس کی جا رہی تھی کہ ملک میں پولیس اور عوام کے درمیان ایک خلیج جو بڑے عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی اور گزشتہ اور حالیہ چند واقعات نے پولیس کو عوام کی نظروں میں کسی حد تک بے وقار کر دیا تھا، لیکن عوام یہ نہیں جان پاتے تھے کہ پولیس والے انسان ہونے کے باوجود الطاف حسین حالی کے اس شعر کی عملی صورت بھی ہوتے ہیں:
”وہ نکلے ہیں اور چین باقی ہے دنیا“
بطور کرائمز رپورٹر اور سب ایڈیٹر مجھے نہ صرف پولیس کی کارکردگی،طریقہ کار، کرپشن اور خدمت گزاری کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ چودھری محمد الطاف قمر سے تو میرا تعلق پولیس افسر اور صحافی سے بڑھ کر دوستی کا بھی ہے۔ اس کے بارے میں پھر کبھی بات ہو گی، مگر اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مَیں نے ہمیشہ چودھری محمد الطاف قمر کی بطور پولیس افسر کار گزاری کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ کالم میں گوجر خان کے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد مَیں نے خود گوجر خان کا دورہ کیا تھا اور حالات کا جائزہ لیا تھا۔ پھر راولپنڈی میں بطور ٹریفک انچارج انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد کی مُنہ زور ٹریفک کو جس طرح قابو کر کے قانون کا پابند بنا کرعوام کو سفر کی سہولت بہم پہنچائی تھی، وہ سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے۔
انہوں نے گجرات میں بھی سماج دشمن عناصر کے منظم، بااثر اورخطرناک گروہ کو جس طرح عبرت کا نشان بنایا تھا، وہ بھی ایک تاریخی کارنامہ ہے، لیکن ان کے کالم پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یا تو مصلحت سے کام لے رہے ہیں یا اختصار سے کام لے کر تفصیل میں جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ مَیں ان سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان تمام واقعات کو سچائی اور تفصیل سے بیان کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو واقعات کی صحیح تصویر دکھائی جا سکے۔ ابھی ان کے بطور اے ایس پی لاہور، قصور، مری، راولپنڈی اہم واقعات اور جو بطور ایس پی اور اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے دوران پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ باقی ہے۔ امید ہے کہ وہ اس سلسلے میں میری گزارش پر غور کریں گے، کیونکہ ان کی یہ یادداشتیں پولیس کے زیر تربیت افسروں کے لئے رہنمائی ثابت ہوں گی۔
مَیں آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ چودھری محمد الطاف قمر کی دیانت داری اور ناجائز سفارش سے گریز کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اُن کے گجرات میں بطور ایس ایس پی تعینات ہوتے ہی سب سے پہلے مَیں نے ایک ڈرائیونگ لائسنس رینویو کروا لیا تھا، کیونکہ میرے لئے یہ بات ناممکن تھی کہ مَیں الطاف قمر کے سامنے اس صورت میں جاتا کہ مَیں نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ الطاف قمر دوستی کو نہیں، قانون کی عزت کو فوقیت دیتا تھا۔ ہماری دوستی اسی لئے سدا قائم رہی کہ اس نے ملکی قوانین کو اور ہم نے صحافتی اصولو ں کو ہمیشہ مدنظر رکھا ہے۔